اس وقت ملکی مسائل ایسے ہیں کہ ہر گزرتے دن ان میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اور حیرانی اس بات پر ہے کہ افراتفری کے اس عالم میں کسی کو پروا نہیں کہ مجموعی طور پر ملک کس قدر پیچھے جا رہا ہے۔ یعنی ایسی صورتحال میں سب سے بڑا مسئلہ جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہوا جاتا ہے، ایسے میں ٹکراؤ سے بچنے کے لیے ہمیشہ حکومت بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے درمیانی راستہ نکالتی ہے،یہاں بھی میرے خیال میں اگر حکومت الیکشن کی تاریخ دے دے تو اس میں آخر مسئلہ کیا ہے؟ اور پھر اگر الیکشن کی تاریخ دینے سے ووٹر گھروں سے نکلتا ہے تو یہ ملک کے لیے خوش آئند بات ہے؟
لیکن اس کے برعکس یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ یہاں ہر بندہ اپنی اپنی سیٹ پر چپکنا کیوں چاہتا ہے؟یورپ یا کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں ایسی صورتحال ہو تو فوراََ عوام سے رجوع کیا جاتا ہے،اور وسیع تر ملکی مفاد میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ تبھی تو چند ماہ میں برطانیہ کے 3وزرائے اعظم تبدیل ہو چکے ہیں، سبھی وزیر اعظم نے جاتے ہوئے ایک ہی بات کہی کہ اگر میرے جانے برطانیہ میں سیاسی استحکام آسکتا ہے تو وہ جانے کے لیے فوری تیار ہیں۔ جبکہ یہاں نہ تو ملکی مفاد کی خاطر استعفیٰ دینے کا رواج ہے نا ہی عوام کے پاس جانے کا۔ جبکہ اس کے برعکس ملک کی معاشی حالت دیکھ لیں، ڈالر ریٹ دیکھ لیں، مہنگائی دیکھ لیں،دنیا بھر میں ہماری ریٹنگ دیکھ لیں اور تو اور جب آپ کا ملک ڈونیشن پرچل رہا ہو تو ایسے میں سنبھل کر چلنے کے بجائے ہر کوئی دراڑیں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور خدشہ رہتا ہے کہ ان کی باہمی لڑائی سے اس وقت ملک ٹوٹ رہا ہے، معاشی طور پر مفلوج ہو رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سیلاب نے بھی موجودہ معاشی مشکلات میں شدید اضافہ کر دیا ہے۔ایسے میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے تو پھر مشرف کا دور بہتر تھا، پیپلزپارٹی کے دور میں حالات ساز گار تھے نہ اْس کے بعد آنے والے ادوار میں کبھی حالات سازگار ہوئے۔ یہاں آج تک غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ یہاں قیادت کا شدید بحران پیدا ہو چکا ہے۔ اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس ملک کے امیر اور دولت مند خاندانوں میں سے ایک حکمران ایسے بھی آئے جن کے دل میں غریبوں کے لیے ہمدردی تھی اور مزدور کے مشکل حالات کا احساس تھا۔ یقیناً آپ جان گئے ہونگے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ایک دفعہ مشہور اطالوی صحافی اوریانا فلاسی نے ایک انٹر ویو کے دوران ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھا کہ آپ تو ایک وڈیرے اور امیر خاندان سے ہیں لیکن آپ کا دل کیوں غریبوں کے لیے دھڑکتا ہے؟ بھٹو نے اس کا جواب کچھ یوں دیا تھا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ میری ماں کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ کسی بھی کمی یا دکھ کا احساس صرف اسی کو ہوتا ہے جس پر یہ کیفیت گزر جاتی ہے۔نہ جانے مجھے یہ فقرے کیوں یاد آ جاتے ہیں ”کہ جنہوں نے سردی اور گرمی کمرے کے شیشوں سے دیکھی ہو اور جنہوں نے بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو، انھیں کیا معلوم کہ سردی اور گرمی کیا ہوتی ہے اور بھوک سے انسان کے جسم ہ جاں پر کیا گزرتی ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ غریب اپنے سے ہمدردی کرنے والوں کو کبھی نہیں بھولتے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس جہاں سے گئے دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن فیکٹریوں کے مزدور اور کھیتوں میں کام کرنے والے ہاری آج بھی اسی کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔لہٰذا میرے خیال میں اس بحران سے بچنے کے لیے فوری طور پر الیکشن کی تاریخ دے دی جائے اور پھر جو نتیجہ سامنے آئے سب اْسی پر عمل کریں۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ الیکشن شفاف ہوں!
کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ صدر ضیاء الحق سے جب بھی کسی بھی پلیٹ فارم پر پوچھا جاتا کہ ملک میں انتخابات کب ہوں گے تو وہ جواب میں یہی کہتے تھے کہ جب تک مجھے انتخابات کے مثبت نتائج کا یقین نہیں ہو جاتا، انتخابات کا انعقاد نہیں ہو گا۔صدر ضیاء الحق کی سیاست اور طرزِ حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کی چند غلطیوں کو موضوع بحث اور شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن اب اْن کے اس بیان کی منطق کافی حد تک سمجھ آ رہی ہے۔یعنی آپ 1976ء کے دھاندلی زدہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ایک بار پھر وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگنے کے بعد، قومی اتحاد کی نشستوں اور عہدوں کے لیے ہونے والی واضح سرپھٹول کے بعد عوامی اور سرکاری سروے یہ بتا رہے تھے کہ اگر حسب وعدہ نوے دن یا ا س کے بعد بھی عام انتخابات کرا دیے گئے تو پیپلز پارٹی کی کامیابی کے امکانات سب سے زیا دہ ہوں گے۔ اس لیے بار بار کے مطالبات اور بیرونی میڈیا کے دباؤ اور سوالات کا صدر ضیاء الحق کی طرف سے یہی جواب دیا جاتا تھا کہ جب تک انہیں مثبت نتائج کی یقین دہانی نہیں ہو جاتی، انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔
بہرحال دنیا میں تین طرح سے حکومتیں چلائی جاتی ہیں، ایک بہترین ایڈمنسٹریشن سے، دوسرا ہمسایوں کے ساتھ بہترین کاروباری حکمت عملی سے اور تیسرا ایسی پراڈکٹ تیار کرنے سے جو دشمن بھی خریدنے کے بے تاب نظر آئے۔ الحمدللہ ہمارے پاس تینوں ہی نہیں ہیں۔ چلیں تینوں شعبہ جات میں ہم کمزور ہوں تو ملک No Profit No Loss پر چلتا رہتا ہے جبکہ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان کو چار مہلک امراض کا سامنا ہے: ڈوبتی معیشت، سابقہ فاٹا کی خطرناک صورتحال، شورشِ بلوچستان اور ٹھیکیدارانِ ملت کی انتہا کو پہنچی ہوئی کم سمجھی۔ان خطرات کا موجود ہونا اب کوئی راز نہیں رہا، ملک کے طول و عرض میں یہ سوچ پھیل چکی ہے کہ ہمارا ملک انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔البتہ خطرات کا موازنہ کیا جائے تو کم سمجھی والا پہلو سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
لہٰذاضرورت اس امرکی ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں اگر نیوٹرل ہیں تو سیاسی بحران کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کریں، اور حکومت کے ساتھ مل کر الیکشن کی تاریخ دے دیں۔ اگر ایک دفعہ الیکشن کی تاریخ دے دی جائے، خواہ عیدالفطر کے بعد یا عید الاضحی کے بعد، یعنی مئی، جون، جولائی کی تاریخ دے دی جائے۔ تو اس سے کیا فرق پڑنا ہے؟ کیا قومی مفاد کے لیے 2,4مہینوں کی قربانی نہیں دی جاسکتی؟ اور ویسے بھی کسی نے ان چار مہینوں میں کیا کر لینا ہے؟ اور ویسے بھی عمران خان اور پی ڈی ایم میں اختلاف اس وقت صرف الیکشن کرانے کی تاریخ پر ہے۔پی ڈی ایم کا موقف ہے کہ جب موجودہ اسمبلیاں اپنا آئینی عرصہ پورا کر لیں گی تو نئے الیکشن کرا دئیے جائیں گے۔عمران خان کا مطالبہ فوری الیکشن کا ہے۔ لیکن یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہے اور عوام جن مشکلات سے گزر رہے ہیں وہ عوام ہی جانتے ہیں۔اور پھر الیکشن کرانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہو سکتا ہے اللہ ہمیں اچھی قیادت نصیب فرمادے جو عوام کا درد رکھتی ہو۔