کراچی: شیعہ علماء کو نسل صوبہ سندھ کے صدر علامہ سید ناظر عباس تقوی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ کی طرف سے سیکورٹی پلان کے اعلان کے با وجود شہر کے حساس مقامات پر کوئی بھی سیکورٹی کے انتظامات دیکھنے میں نظر نہیں آ رہے. مساجد اور امام بارگاہوں پر دہشت گردی کے حملے کے خدشات کے باوجود سیکورٹی انتظامات کا نہ ہونا سوالیہ نشان ہے جبکہ اس وقت تمام مساجد اور امام بارگاہوں میں شہادت ایام فاطمہ کی مجلس اور جلوسوں کا سلسلہ جاری ہے. ایسی صورت میں اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا حتی کے سہون جیسے سانحہ کے باوجود لال شہباز قلندر کے مزار سے رینجرز کی سیکیورٹی کو ہٹا دینا اور خواتین کی سیکورٹی کے لئے غیر تجربے کار عورتوں کو بھرتی کر نا عوام کے جان ومال سے کھیلنے کے مترادف ہے.
ان کا کہنا تھا کہ ردالفساد آپریشن کے اعلان کے بعد ڈیڑھ اسمائیل خان میں ہونے والی شیعہ ٹارگٹ کلنگ آپریشن ردالفساد کرنے والوں کے لئے اب مزید چیلنج بن گیا ہے. ردالفساد آپریشن بلا تفریق دہشت گردوں کے خلاف کیا جائے اور اس آپریشن کو سیاسی مداخلت سے دور رکھا جائے تا کہ یہ آپریشن اپنی صحیح سمت پر جاری رہ سکے گزشتہ دنوں سانحہ سہون کے سہولت کاروں کی گرفتاری اور سیاسی وابستگیوں نے عوام کو حیران کر دیا ہے۔
ان کا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اصل حقائق کو عوام کے سامنے لائے اور جو عناصر بھی سانحہ سہون میں ملوث ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور مقتولین کے لواحقین کو انصاف فراہم کیا جائے۔