200 سو سال قدیم سنہری مسجد کو شہید کیے جانے کا خدشہ

200 سو سال قدیم سنہری مسجد کو شہید کیے جانے کا خدشہ
سورس: file

نئی دہلی: نئی دہلی کی سنہری مسجد /سنہری باغ مسجد کو شہید کئے جانے کا سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ نئی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) نے دارالحکومت میں سنہری مسجد کو ہٹانے کے لئے ایک عوامی نوٹس جاری کیا ہے تاکہ ٹریفک میں پیش رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسد مدنی نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو لکھے ایک خط میں این ڈی ایم سی کے نوٹیفکیشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے "مشترکہ ثقافتی ورثے" کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان پر زور دیا۔

تاریخی سنہری مسجد صنعت بھون کے قریب لوٹین دہلی کے قلب میں واقع ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مسجد 200 سال قبل لاکھوری اینٹوں سے بنائی گئی تھی۔ اس مسجد کو اس کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے 2009 میں ہیریٹیج III کا درجہ ملا۔

مورخ ایس عرفان حبیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ سنہری باغ مسجد صرف ایک مسجد نہیں ہے، اس کی ایک تاریخ ہے جو ہمارے کئی آزادی پسندوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ہماری دستور ساز اسمبلی کے رکن حسرت موہانی اجلاسوں میں شرکت کے لیے یہاں ٹھہرتے تھے۔ اس کی شاندار تاریخ کا خیال رکھیں۔

 2009 میں مسجد کو تاریخی اہمیت دی گئی تھی ۔سنہری باغ مسجد صرف ایک مسجد نہیں ہے، بلکہ یہ ایک تاریخی حرمت کی حامل مسجد ہے ۔

سنہری مسجد کی زمین کی ملکیت کے بارے میں بھی متضاد دعوےسامنے آئے ہیں۔ دہلی وقف بورڈ اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ این ڈی ایم سی کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین حکومت کی ہے۔

این ڈی ایم سی اب مسجد کے مجوزہ ہٹانے پر عوام کی رائے طلب کر رہا ہے۔جمعیۃ علماء ہند کے ایک وفد  کے ایک رکن مولانا حکیم الدین قاسمی نے دہلی کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ این ڈی ایم سی کے نوٹیفکیشن کے خلاف آواز بلند کریں۔

مصنف کے بارے میں