کہتے ہیں کسی بھی قوم کو زنجیروں میں جکڑنا ہو تو اسے قرضہ دیا جائے وہ بھی سود پر۔پاکستان میں جہاں پر بہت سے مسائل ہیں وہاں پر ہی ایک مسئلہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا بھی ہے جو اس وقت بری طرح پاکستان میں بسنے والے شہریوں کے گلے کا طوق بن چکا ہے اور یہ قرضے پاکستان پر جو ہے حکمرانوں کے لئے اور عوام کے لیے گلے کا وہ کانٹا بن چکے ہیں جس سے نگلہ جا رہا ہے نہ ہی اگلا جا رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ د ن بدن طول پکڑتے جا رہے ہیں اگر کسی حکومتی نمائندے سے بات کرتے ہیں تو وہ حکومت کی کارگردگی گنواتے ہوئے تھکتے نہیں اور کہتے ہیں اپوزیشن ہمیں کام نہیں کرنے دیتی ہے صرف ہم پر تنقید کرتی ہے۔میں ایک پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے حکومت سے سوال کرتی ہوں کہ موجودہ حکومت کے نمائندے کہتے ہیں کہ ہم نے ملک میں بہت کام کیا ہے تو یہ بتائیں حکومت نے جب ملک کی کمانڈ سنبھالی تب سے اب تک قرضوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ جو بھی حکومت پاکستان کے کمانڈ سنبھالتی ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ عوام کو بتائیں کیونکہ میں ایک پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے یہ حق رکھتی ہوں کہ بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ عوام کو معلوم ہونی چاہیے کیونکہ پیسہ عوام کی جیب سے جانا ہے ان قرضوں کا۔حکومت نے مالی سال کے پانچ ماہ میں 4 ارب 60 کروڑ ڈالر کا غیر ملکی قرضہ لیا ہے مالی سال 21-2020 کے دوران غیر ملکی امداد کے مجموعی رقم 13 ارب 54 کروڑ70لاکھ ڈالر تھی جولائی 2018 سے اب تک لیے گئے مجموعی قرضے تقریباً 40 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔اقتصادی امور کی جانب سے جاری کردہ غیر ملکی امداد سے متعلق ماہانہ رپورٹ میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے کہ پاکستان نے تقریبا ً4 ارب ڈالر کا قرض لیا اور تقریباً 12 کروڑ 30،لاکھ ڈالر کی گرانٹس شامل ہے۔حکومت کا بجٹ میں رواں مالی سال کے دوران غیر ملکی قرضوں اور فرانس کی مد میں تقریبا ً14 ارب دس کروڑ ڈالر حاصل کرنے کا ہدف ہے رواں مالی سال کے پانچ مہینوں کے مجموعی قرض میں پروگرام یا بجٹ سپورٹ کے لیے 2 ارب 93 کروڑ ڈالر کے منصوبوں کے لیے ایک ارب 71کروڑ شامل ہیں اور اس طرح حکومتی طرز دو سال میں 22 فیصد بڑھ کر 38 ہزار 700 ارب روپے ہوگیا ہے اور اس میں بھی ترقیاتی بینک عالمی, بینک اسلامی ترقیاتی بینک, ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک _جیسے دیگر کثیرالجہتی قرض دہندگان نے رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران مجموعی طور پر تقریبا 2 ارب ڈالر تقسیم کیے ہیں ۔حکومتی قرض گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد بڑھ کر 29 ہزار ارب سے متجاوز ہو گیا مالی سال 19-2018 میں ادائیگیوں کا حجم 10 ارب 82 کروڑ ڈالر تھا جبکہ سال کی مجموعی ادائیگیاں 35 ارب دس کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔جب ان حالات کو عوام دیکھتی ہے تو موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے والے بلند و بالا دعوے یاد کرتی ہے اور آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے اس وقت کو کہ وہ کونسا وقت تھا کہ ہم عمران خان کی باتوں میں آئے اور ہم نے ان کا انتخاب کیا وہ بھی دلدل میں دھنستے ہوئے اپنے ملک پاکستان کے لیے حکومت بہت زیادہ دعویٰ تو کرتی تھی کہ ہم اقتدار میں آئیں گے تو کسی کے آگے کشکول لے کر کبھی بھی نہیں جائیں گے مگر پھر کیا ہوا آخر کار حکومت آتے ہی آئی ایم ایف کے قدموں میں چلی گئی وہی کشکول لے کر جو ماضی کی حکومتیں جاتی تھیں۔ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت میں صرف اتنا فرق ہے کہ ماضی کی حکومتیں جو کرتی تھیں بتا کر کرتی تھیں اور موجودہ حکومت جو کر رہی ہے ناں ناں کرتے ہوئے بھی وہی کر رہی ہے جو ماضی کی حکومتیں کرتی ہیں ۔جو ہم سب کی برسوں سے دیکھتے آرہے ہیں اگر دیکھا جائے تو ہمارے وزیراعظم صاحب سے لے کر ان کے ایک وزرا کا بیان سنیں تو یہی کہتے ہیں کہ پاکستان ماضی میں چوروں کے ہاتھوں میں رہا پاکستان کو لوٹ کر کھایا گیا تو جناب بس کریں جناب وزیراعظم صاحب کام تو کر کے دکھائیں۔چلیں آپ اتنا کہتے رہے کہ پاکستان چوروں کے ہاتھوں میں رہا تو مان لیتے ہیں سب ماضی میں چور تھے مگر اب تو پاکستان صادق اور امین کے ہاتھ میں ہے تو ثابت کریں نا کہ آپ صادق اور امین ہیں۔اور آپ کے پاس پورا پلان تھا پاکستان کو قرضوں سے نکالنے کا اب عوام کے سامنے اس پر عمل درآمد کر کے دکھائیں ۔اگر دیکھا جائے تو سب ہی اپنے دور اقتدار میں صادق اور امین ہوتے ہیں اور اقتدار سے جانے کے بعد ہی کرپشن پتا چلتی ہے جب چڑیاں چگ جاتی ہیں کھیت ہائے افسوس ہوتا ہے اپنے معصوم پاکستانی بہن بھائیوں کے حالات پر جن کی جیب میں پیسے آتے تو ہیں مگر جاتے ہیں جیسے پیسے مٹی ہو یہ سب قرضہ بڑھنے کی وجہ ہے ملک میں بڑھتے قرضے عوام کی جیبوں سے نکل رہے ہیں اب عوام ہاتھ جوڑے بیٹھی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ خدارا اب تو رحم کرو،،،،