میں نے اپنے کئی پروگرامز اور کالمز میں اس بات کا عندیہ دیا کہ دسمبر میں مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا مگر جوں ہی یہ بات وقت سے پہلے ڈسکس ہوئی تو حکومتی وزراء کی طرف سے تابڑ توڑ بیانات جاری ہونے شروع ہوئے اور قیمتوں کو ایک بار پھر سے ریوائز کرتے ہوئے بہت سی اشیاء کی قیمتوں میں کمی تو کیا اُس کے بعد بھی میں نے کئی کالمز میں اس بات کا اظہار کیا کہ حکومت زیادہ دیر تک مہنگائی روک نہیں پائے گی مگر اس بات پہ شاید اپوزیشن کی بھی توجہ نہیں ہوئی اور حکومت ایک بار پھر منی بجٹ کی منظوری کے لیے تیاریاں کر رہی ہے اور تمام وزیر مشیر جو سابقہ ادوار میں مہنگائی کا راگ الاپتے تھے آج اُنہیں مہنگائی محسوس ہی نہیں ہو رہی۔
ضمنی بجٹ کا بل آج دسمبر بروز منگل منظوری کیلئے کابینہ اور پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔حکومت 12جنوری کو آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ سے قبل عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کی تکمیل یقینی بنانے کے لئے پرُعزم ہے۔ایک ارب ڈالر کے قرض کے لیے موجودہ بجٹ میں 550ارب روپے کی ری ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔اس میں ترقیاتی بجٹ میں 22فیصد کٹوتی ،360ارب روپے کے ٹیکسوں کے استثناکا خاتمہ اور پیٹرولیم لیوی میں ماہانہ چار روپے فی لیٹر کا اضافہ شامل ہے۔جیسا کہ پہلے بھی میں نے اس بات کا ذکر کیا کہ پچھلے دنوں جو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی اس کمی میں دوبارہ سے اضافہ کیا جائے گا یعنی پہلے عوام کو کمی کرکے گڈ گورننس کا عندیہ اور پھر مہنگا کرکے عالمی مہنگائی کا رونا۔
آئی ایم ایف کی شرائط میں سٹیٹ بینک قوانین میں ترامیم کی منظوری ۔اس ضمنی بجٹ کے معیشت پر اثرات واضح ہیں،ٹیکسوں کا نفاذاور پیٹرولیم لیوی میں اضافہ عوامی معیشت پر منفی اثرات واضح ہیں۔ٹیکسوں کے استثنا کا خاتمہ یعنی نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور پٹرولیم لیوی میں اضافہ عوامی معیشت پر منفی طورپر اثر انداز
ہوگامگر جوحکومت آئی ایم ایف کی شرائط کی تعمیل کیلئے اس قدرسنجیدگی کا مظاہر ہ کررہی ہے وہ کم آمدنی والے طبقے کیلئے ٹارگٹڈ سبسڈی کے پروگرام میں لیت ولعل سے کام لیتی دکھائی دیتی ہے اس مجوزہ پروگرام کے تحت ماہانہ 31ہزار سے کم آمدنی والے طبقے کے دو کروڑ گھرانوں کو آٹا،دال اور گھی کی قیمتوں میں 30فیصد چھوٹ دی جانی تھی اگرچہ یہ چھوٹ معمولی ہے اور اس سے کسی گھرانے کو یومیہ اخراجات میںشاید چند روپے کا فائدہ ہی حاصل ہوسکتا ہے مگر تین ماہ ہونے کو آئے کہ حکومت یہ معمولی سافائدہ بھی یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔مہنگائی کے ہاتھوں سب زیادہ مجبور اس طبقے کیلئے حکومت کے پاس ابھی تک احساس کے نام پر چند نعروں اور ایک امید کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔مہنگائی کے مسئلے کی تشویش کو سمجھنے کیلئے خیبر پختوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ حکومت کیلئے لٹمس ٹیسٹ تھا،مگر اس نتیجے کا صحیح تجزیہ کرنے کی بجائے حکومت اس کے اسباب کہیں اور تلاش کرکے خود کو مغالطے میں ڈال رہی ہے۔
مہنگائی کے فی زمانہ متعدد اسباب گنوائے جاتے ہیں،یہ بھی کہا جاتا کہ مہنگائی کے مسئلے کا سامنا اس وقت تقریباسبھی ممالک کو ہے مگر یہ اسباب ہر جگہ یکساں نہیں ہیں ۔ یورپ اور امریکہ میں اگر سپلائی چین کے مسائل مہنگائی کا سبب ہیں تو لازمی نہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ وطن عزیز میں مہنگائی کے بنیادی اسباب میں حکومتی محصولات میں بڑا اضافہ،توانائی کی بہت زیادہ زیادہ قیمتیں اور کمزور مارکیٹ ریگولیشنز شامل ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کی ساری ذمہ داری کو رونا وبا پر عائد نہیں کی جا سکتی بلکہ پاکستان تو ان معددوے چند ممالک میں شامل ہے جو کورونا لاک ڈائون سے سب سے کم متاثر ہوئے اور اس دوراینے میں حکومت نے تعمیراتی فیصلے کئے اور برآمدی مال تیار کرنے والی فیکٹریوں کو کام کرنے کی اجازت دے کر معاشی اعتبار سے مثبت فیصلے کئے تاہم کورونا لاک ڈائون کے محدود دوراینے میں جو مثبت کام ہوا اس کا مومینٹم زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھا جا سکا۔ چنانچہ معیشت کو متحرک کرنے کے یہ اقدامات کوئی بڑا اثر بھی نہیں دکھا سکے۔ تعمیراتی سرگرمیاں درجن بھر صنعتوںکو متحرک کرتی ہیں اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرتی ہیں۔
مگر حکومت معیشت کے اس انجن کو زیادہ دیر متحرک نہیں رکھ سکی۔ نئے ٹیکسوں اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے تعمیراتی شعبہ شدید متاثر ہوا ہے اور سرگرمیاں رک جانے سے روزگار کے مواقع جو کچھ عرصہ پہلے بڑی تیزی سے بڑھ رہے تھے اسی تیزی سے کم ہو رہے ہیں ۔ایک قابل ذکر صنعتی شعبے میں اتنی تیزی سے گراوٹ بھی اسی دور حکومت کا حصہ ہے دوسری جانب صنعتی شعبہ اور زراعت کا حال اس سے گیاگزرا ہے مہنگی توانائی ،مزید ٹیکس اور ڈالر کی شرح مبادلہ سے خام مال کی قیمتوں پر پڑنے والے اثرات بھی ہیں مگر وطن عزیز میں غیرملکی سرمایہ کاری کے رجحان میں بھی واضح کمی نظر آرہی ہے ۔یہ صورتحال معاشی منصوبہ بندی کی حکومتی ٹیم سے اوجھل نہیں مگر اس میں اصلاح کی قابل ذکر کوشش دکھائی نہیں دے رہی ۔ نئی غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے وطن عزیز کی جانب سے بہتر مارکیٹنگ کی کوئی کوشش کوئی عزم اور جدوجہد نظر نہیں آتی جو معاشی فیصلے کئے جارہے ہیں وہ سرمائے کے انخلا کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ حکومت شرائط لاگو کئے جانے کے اسباب خود پیدا کرکے دے رہی ہے شوکت ترین صاحب نے جب مئی میں وزارت خزانہ کا منصب سنبھالا تو پہلی پریس کانفرنس میں یہ قرار دیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط کے بجائے اپنے طریقے سے ریونیو بڑھائیں مگر چھ ماہ کے مختصر عرصے میں انہوں نے ٹیکس وصولیاں بھی بڑھائی اور اب آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ اس کا م کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتے ہیں لیکن غریب عوام کیلئے اب بھی اس حکومت کے پاس معاشی سہولت کا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔