کیلیفورنیا:ٹیلی گرام ایک مقبول ایپ ہے لیکن اس کے کچھ ایسے فیچرز بھی ہیں جو متنازع ہیں اور ان فیچرز کی وجہ سے اس ایپ کی مقبولیت مزید بڑھی تھی۔
مقبول میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کے بانی پاول دروف کی وجہ سے آجکل ٹرینڈنگ پوزیشن پر ہے ۔ تاہم ٹیلی گرام دراصل آئی میسج یا واٹس ایپ سے ملتی جلتی ایک میسجنگ ایپ ہے۔
اس کے بعض فیچرز ایسے ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے صارفین یا مواد کی نگرانی کو کافی مشکل بنا دیتے ہیں۔یہاں صارفین اور مواد کی نگرانی میں نرمی کی بدولت لوگ باآسانی ایک دوسرے سے رابطہ رکھ سکتے ہیں، احتجاج کے لیے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور اپنی شناخت چھپا سکتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹیلی گرام پر بلا نگرانی وسیع پیمانے پر معلومات کی ترسیل سے تیزی سے فیک نیوز پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔ یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ٹیلی گرام کی وجہ سے شدت پسندی، سازشی نظریات اور بچوں سے متعلق جنسی مواد پھیل رہا ہے۔
آپ ٹیلی گرام پر اپنے موبائل نمبر کو خفیہ رکھ سکتے ہیں اور بغیر سم کارڈ کے بھی سائن اپ کر سکتے ہیں۔ گروپس اور چینلز میں صارفین دوسروں کے موبائل نمبر نہیں دیکھ سکتے۔ٹیلی گرام پر صارفین اپنی چیٹس میں آٹو ڈیلیٹ کا فیچر استعمال کر سکتے ہیں۔ صارفین یہاں موصول ہونے والے یا بھیجے گئے پیغامات کو دونوں طرف سے حذف کر سکتے ہیں۔ ٹیلی گرام کا دعویٰ ہے کہ واٹس ایپ کے مقابلے یہاں پیغامات زیادہ محفوظ ہیں اور ان کی بہتر اِنکرپشن ہے۔
ٹیلی گرام میں آپ دو لاکھ صارفین پر مشتمل گروپ بنا سکتے ہیں۔ یہ فیچر ایک ایسے وقت میں متنازع ہوا ہے کہ جب دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (جیسے واٹس ایپ) جعلی خبروں اور غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے گروپ میں صارفین کی تعداد کو محدود کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک فیچر یہ ہے کہ صارفین ایسے چینلز اور گروپس کی میزبانی کر سکتے ہیں جن میں لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی فیچر اس کی مقبولیت کی وجہ بھی ہے۔
برطانیہ میں ٹیلی گرام پر اس وقت تنقید کی گئی جب رواں ماہ کئی شہروں میں دائیں بازو کے گروہوں کے مظاہروں کے دوران پرتشدد واقعات ہوئے۔ ٹیلی گرام ایپ پر دائیں بازو کے خیالات کے حامی گروہوں کے چینلز ہیں اور یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ منتظمین نے انھی چینلز کی مدد سے کئی شہروں میں مظاہرے کیے۔
ٹیلی گرام نے ایسے کچھ گروپس کوڈیلیٹ کیا ہے۔ تاہم سائبر سکیورٹی کے ماہرین کے مطابق شدت پسندی اور جرائم سے متعلق مواد کے لیے اس کا نگرانی کا نظام دیگر سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپس کے مقابلے کافی کمزور ہے۔
ٹیلی گرام پر صارفین بڑی فائلز شیئر کر سکتے ہیں۔ چینلز میں صارفین سے روابط قائم کرنے کے لیے لنکس یا بوٹس استعمال کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔
یہ کمپنی اپنی ایپ پر اشتہارات، خرید و فروخت، سبسکرپشن اور دیگر طریقوں سے منافع بھی کماتی ہے۔ دروف نے اخبار دی فنانشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ ٹیلی گراپ منافع بخش کمپنی بننے کے قریب ہے اور ایسی صورت میں اسے سٹاک مارکیٹ پر لسٹ کیا جائے گا۔