اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل نے پاکستان تحریک انصاف کو 8 ستمبر کے جلسے کی اجازت کی یقین دہانی کے بعد اسلام آباد جلسے کا این او سی معطل کرنے پر پی ٹی آئی کی جانب سے دائرتوہینِ عدالت کی درخواست زیرالتوا رکھ دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کی جانب سے دائرتوہینِ عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔ وکیل شعیب شاہین نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ہمارا جو خدشہ تھا ہمارے ساتھ وہی ہوا ہے ، ہمیں جلسے کی اجازت دی گئی اور پھر آخری دن این او سی معطل کر دیا گیا ۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کیا جلسے کا این او سی امن و امان کی صورتحال کے باعث معطل کیا گیا؟ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں، بلوچستان میں جو ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آخری رات ہی این او سی معطل کرنے کا کیوں بتاتے ہیں؟ یہ لوگ ایک پارٹی کے سپورٹر ہیں لیکن اس سے پہلے انسان اور پاکستان کے شہری ہیں ، انتظامیہ آخری وقت پر جا کر جلسے کا این او سی کیوں معطل کرتی ہے؟ آپ پہلے بتا دیا کریں کہ سیکیورٹی خدشات ہیں اجازت نہیں دے سکتے ۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ یہ پہلے بتائیں جو بھی بیس پچیس ہزار لوگ آنے ہوتے ہیں اُن کی جان کو خطرہ ہے ، وہ کوئی بےحس لوگ تو ہیں نہیں کہ انہوں نے پھر بھی اپنے لوگوں کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے اس موقع پر کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کا شکریہ کہ انہوں نے جلسہ ملتوی کر دیا، ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کی اگلی اجازت بھی دیدی ہے ۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ پورا اسلام آباد بند ہے کنٹینرز ہی کنٹینرز ہیں، وجہ کیا ہے؟ صرف ایک مارگلہ روڈ کھلا ہے اور وہاں بھی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں ، گاڑیوں کی آدھے پونے گھنٹے کی لمبی لائن ہوتی ہے ، محرم ہو گیا، ختم نبوت والے آ گئے، اب آگے کیا ہونا ہے وہ بھی بتا دیں ۔ انہوں نے کہا کہ کیا اچھا لگے گا کہ میں کمشنر کو بلا کر شوکاز نوٹس جاری کروں ۔
بعد ازاں چیف جسٹس عامر فاروق نے توہین عدالت درخواست زیرالتواء رکھتے ہوئے کیس کی سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کر دی۔