سیئول: جنوبی کوریا میں ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر پیدائش کی شرح سب سے نچلی سطح پر یکارڈ کی گئی ہے۔ جنوبی کوریا میں پہلی بار فی عورت ایک بچہ سے کم شرح 2018 میں ریکارڈ کی گئی تھی۔اب یہ شرح مزید نیچے گر کر 0.81 بچہ فی خاتون جا پہنچی ہے۔ یعنی گزشتہ برس کے اعدادوشمار سے اعشاریہ تین نکات مزید نیچے۔
حکومت کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعدادوشمار کے مطابق جنوبی کوریا میں شرح پیدائش میں یہ مسلسل چھٹی گراوٹ ہے۔ دنیا کی ترقی پذیر معیشتوں میں شرح پیدائش اوسطاً 1.6 بچے فی خاتون ہے۔ اگر ہجرت کے امکانات کو نکال دیا جائے تو کسی بھی ملک کی آبادی کسی ایک سطح پر برقرار رکھنے کے لیے 2 0 .1 بچے فی خاتون کی ضرورت ہوتی ہے۔
آرگنائزیشن فار اکانومک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق گذشتہ چھ دہائیوں میں شرح پیدائش میں شدید گراوٹ سامنے آئی ہے۔ جنوبی کوریا میں شرح پیدائش میں کمی چند نسلوں سے ہوئی اور خاندانوں کے سائز سکڑتے چلے جا رہے ہیں۔ جنوبی کوریا میں 1970 کی دہائی کے آغاز تک اوسطاً ہر خاتون کے چار بچے ہوا کرتے تھے۔
کسی ملک کی کم ہوتی آبادی اس پر شدید دباؤ اور اس کے مستقبل پر بڑا سوال کھڑا کر سکتی ہے۔ جیسے جیسے عمر رسیدہ آبادی کی طبی ضروریات اور پینشن کی ضروریات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔
ملک کی کم ہوتی نوجوان آبادی کے سبب لیبر مارکیٹ متاثر ہوتی ہے ۔ ضرورت کے باوجود نوکریوں کو پر کرنے والے لوگوں کی قلت محسوس کی جانے لگتی ہے جس کا ملک کی معیشت پر اثر پڑتا ہے۔
سنہ 2020 سے ملک میں اس بارے میں خاصی فکر پائی جاتی ہے۔ رواں برس پیدائش کی شرح پہلی بار ملک میں ہونے والی اموات سے کم تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں پیدائش کی شرح میں ہونے والی کمی کے پیچھے حالیہ برسوں میں بڑھنے والا معاشی دباؤ اور کریئر پر عوام کی مزید توجہ بھی ہے۔
ماہرین کے مطابق ملک میں زندگی کی بنیادی ضروریات کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ گھروں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کورونا کے سبب بھی بہت سے نوجوان جوڑوں نے بچے پیدا کرنے کے منصوبے کو مؤخر کر دیا ہے۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر جنوبی کوریا کی آبادی مزید گھٹتی چلی جاتی ہے، تو وہاں معیشت کو چلانے کے لیے لوگ نہیں بچیں گے۔ اس کے علاوہ ملک کی بوڑھی آبادی کا خیال کون رکھے گا یا فوج میں کون بھرتی ہو گا؟ یہ مسئلہ سیاست دانوں کو بھی ایک عرصے سے پریشان کر رہا ہے لیکن وہ اس کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو بچے پیدا کرنے کے لیے راضی کرنے کی تمام کوششوں پر ہزاروں خرچ کیے، لیکن بات نہیں بنی۔
اس مسئلے کی سب سے بڑی جڑ معاشی وجوہات ہیں۔ جنوبی کوریا میں بچے پالنا بہت مہنگا ہے اور متعدد نوجوانوں کی زندگی کے اہم فیصلے گھر خریدنے کی کوشش میں متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ خواتین کے لیے برابری کے مواقع کی کمی ہے۔ جنوبی کوریا کی خواتین تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن کام کے مقامات پر انھیں اکثر برابری کے مواقع نہیں ملتے۔ ملک میں عورتوں اور مردوں کی تنخواہوں میں فرق دنیا کے کسی بھی دولت مند ملک سے زیادہ ہے۔
جنوبی کوریا میں خواتین کو کریئر اور بچوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو بچوں کی خاطر کریئر کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کورین خاتون کا کہنا ہے کہہم بچے پیدا کرنے کی ہڑتال پر ہیں۔