کوئٹہ: وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ سیلاب 2010 کے سیلاب سے کہیں زیادہ بڑا ہے ۔ متاثرین کی مکمل بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، دن رات کام کریں گے ۔
بلوچستان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دوست ممالک کی طرف سے امداد کے پیغامات آ رہے ہیں ۔ برطانیہ ڈیڑھ کروڑ پاؤنڈ متاثرین کیلئے امداد دے رہا ہے ۔ ترکی سے امدادی سامان لے کر جہاز روانہ ہوچکے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات سے بھی سامان کے جہاز آج پاکستان پہنچیں گے ۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سے ٹیلیفون پر بات ہوئی ہے ۔ دوست ممالک کے سربراہان مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ ہیں ۔ مشکل وقت میں ساتھ دینے پر دوست ممالک کے سربراہان کے شکر گزار ہیں ۔
شہباز شریف نے پاکستان کے مخیر حضرات سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دکھی بہن بھائی آپ کی امداد کے منتظر ہیں ، آگے بڑھ کر ان کی مدد کریں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں ایسے لگ رہا ہے جیسے سمندر بہہ رہا ہو ۔ پنجاب اور سندھ کے متاثرہ علاقوں میں بھی ہر جگہ پانی ہی پانی ہے ۔ طوفانی بارشوں نے پورے ملک میں سیلاب بن کر تباہی پھیلائی ہے ۔ صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں سوات ، کالام ، نوشہرہ اور دیگر علاقے شدید متاثر ہوئے ۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ ملک بھر میں ایک ہزار سے زائد افراد سیلاب اور بارشوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ سیلاب اور بارشوں سے فصلوں اور لائیواسٹاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کی ٹیم متاثرین کو بھرپور سہولتیں فراہم کر رہی ہے ۔ جس خیمے کا بھی دورہ کیا وہاں متاثرین کو کھانا اور پینے کا پانی مل رہا ہے ۔ بلوچستان کیلئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے ۔ سندھ میں انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے 15 ارب روپے فراہم کئے ہیں ۔
شہباز شریف نے کہا کہ کل رات ایئر چیف سے بات ہوئی ، انہوں نے ریلیف کے کاموں کے بارے میں آگاہ کیا ، اب تک 50 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر ریسکیو کرکے منتقل کیا جاچکا ہے ۔ پاک افواج دن رات امدادی کاموں میں مصروف ہیں ، مسلح افواج کے سربراہوں نے ریلیف کے کاموں میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ خالی باتوں ، نعروں اور الزامات لگانے سے کوئی کام نہیں ہوگا ۔ باتیں کرکے ، الزامات لگا کر اور جھوٹ بول کر قوم کو کب تک گمراہ کریں گے ۔ اب صرف نعروں اور تقاریر کی نہیں بلکہ عملی کام کی ضرورت ہے ۔