یہ ایک ایسی ہی رات تھی جو گزشتہ 14 سالوں میں آتی تھی اور دبے پاو¿ں رخصت ہو جاتی تھی۔ شاید کوئی نہ مانے مگر اکثر ایسا ہی ہوا کہ میں بھول ہی گئی۔ دو چار دن بعد یاد آیا تو حیرت بھی ہوئی کہ زندگی اتنی تیز رفتار ہے کہ گاڑی اتنے بڑے جنکشن سے رکے بغیر کیونکر گزر جاتی ہے! ایسے ہی ایک سال 13 اگست کی صبح تھی۔ احادیث مبارکہ کا مجموعہ اٹھایا، جس صفحے پر کتاب کھلی، دو صفحوں پر دو نگینے جڑے مجھے یاد دلا رہے تھے، تم بھولی ہو تمہارا الشکور رب نہیں بھولا۔ آو¿ دیکھو ایک مبارک خط چودہ صدیاں طے کرتا تمہاری تسکین کو آیا ہے۔ آپ بھی پڑھیے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کے بیٹے کی وفات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تعزیتی خط (یمن) لکھا۔ خط کا مضمون یہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے معاذ بن جبلؓ کے نام۔ تم پر سلامتی ہو۔ میں اللہ کا شکر اور اس کی حمد وتعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ تم بھی اللہ کا شکر اور تعریف کرو۔ امابعد! اللہ تعالیٰ تمہیں اجرِ عظیم دے اور تمہیں صبر دے اور ہمیں اور تمہیں شکر کی توفیق بخشے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جانیں اور مال اور بال بچے یہ سب اللہ کی خوشگوار نعمتیں ہیں اور یہ ہمارے پاس اللہ کی رکھی ہوئی امانتیں ہیں۔ جب تک یہ تمہارے پاس رہیں مسرت اور خوشی تمہیں ملے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارا ایک بیٹا تم سے واپس لے لیا ہے۔ اس صدمے پر اللہ تمہیں اجر عظیم سے نوازے۔ تمہارے لیے خدا کی رحمت اور انعام اور ہدایت ہو، اگر تم نے اجرِ آخرت کی نیت سے صبر کیا۔ پس تم صبر کرو اور دیکھو! تمہاری بے قراری اور بے صبری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر نہیں آسکتا اور نہ غم دور ہوسکتا ہے اور جو حادثہ واقع ہوا ہے اسے تو ہونا ہی تھا۔ والسلام۔ (اللھم صل علی محمد وانزلہ المقعد المقرب عندک یوم القیامة) (المعجم الکبیر لطبرانی)
اگلی حدیث کا عنوان تھا: ’بچے کی وفات پر جنت کی خوشخبری!‘ اور اس حدیث مبارکہ میں ایک صحابیؓ کے بچے کے انتقال پر آپ نے ان سے ملاقات فرمائی اور کریم نبی نے شہد سے میٹھے الفاظ سے ان کے زخم پر محبت بھرا پھاہا رکھا۔ اور اس یقین دہانی پر بات مکمل فرمائی: وہ بچہ اس لیے تمہاری زندگی میں مرا ہے تاکہ وہ تمہارے لیے جنت کا دروازہ کھولے! (آمین یا رب العالمین!) (الترغیب والترہیب)
مگر اتنے سال بعد یہ تذکرہ کیوں؟ وجہ یہ بنی کہ حسن اتفاق سے اس مرتبہ 12 اگست کا دن یاد رہا! شام خاموشی سے گزر گئی۔ یہ یاد ضرور آئی کہ امت کے غم میں گھلنے والے اس ساڑھے 17 سالہ نوخیز سے جب کسی نے (ساڑھے سولہ سال میں) عمر پوچھی تو کہنے لگا کہ بس محمد بن قاسمؒ بننے میں چھ ماہ باقی ہیں! اور پھر آخری باتوں میں ہچکیاں لیتے ہوئے زار وقطار روتے ہوئے ایک ہی بات بار بار دہرائی تھی: مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا ہے۔ مجھے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا ہے! اور پھر 12 اگست 2008ءکو وہ رات آگئی!
اب یہ 12 اگست 2022ءتھا۔ لگ بھگ وہی وقت تھا۔ (پاکستان اور امریکا کے وقت میں 10 گھنٹے کا فرق ہے۔ دونوں واقعات کا وقت تقریباً ایک ہی تھا!) رات 11 بجے فون کی گھنٹی بجی۔ غیرمعمولی وقت تھا، پوچھا خیریت ہے؟ ہاں! بہت بڑی خبر ہے دیکھ لیں!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدترین گستاخیوں کے تسلسل کا مرتکب سلمان رشدی اور اس پر ہونے والے انعامات، اعزازات کی بوچھاڑ سے مغرب نے امت مسلمہ کے ہر ذی ہوش کے سینے میں خنجر گھونپا تھا (1988ئ)۔ امریکا میں صبح پونے گیارہ بجے (2022ئ) ایک شیر اس پر پل پڑا۔ اولین گستاخ رسول ابولہب کے شاتم رسول بیٹے عتبہ کا سا انجام بریکنگ نیوز کے طور پر چل رہا تھا۔ چھرے کے پے درپے وار سے اسی انجام کو پہنچانے کے درپے ہادی مطر! مطر کے معنی بارش کے ہیں۔ امت کے غیظ وغضب کی بوچھاڑ بن کر اسے اس کے خون میں شرابور کرنے والے پر اللہ اپنی رحمتوں کی بارش برسا دے (آمین)! آنکھوں سے نیند اڑ گئی۔ خیال تھا کہ پوری امت اس پر شکرگزار اور طمانیت سے بھرا ردعمل دے گی۔ مگر اگلی صبح اخبارات پر ایک سناٹا تھا۔ میڈیا، بیانات، خبروں میں وہی بہکی بہکی سیاسی باتیں، دھمکیاں، الزامات حسب سابق تھے۔ گویا دنیا میں کوئی اہم واقعہ ہوا ہی نہیں۔ عرب دنیا میں نیٹ پر جھانکا، وہاں بھی بس ایک خبر جو بی بی سی، سی این این نوعیت کی چینلوں پر تھی، وہی سرسرا رہی تھی۔ خشک، بے روح، بے جان خبر! ایمان کی حرارت، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گداز، پرنم آنکھیں، تر ہوتی داڑھیوں کا تذکرہ کہاں! نہ سنت نبوی سے سجے چہرے ہیں نہ ہربن مو سے پھوٹتا تب وتاب بھرا درود وصلوٰة ہے! مشرق وسطی، اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھاتا، درد کی دولت سے محروم ہو رہا! ’عشق‘ ہے محو تماشائے لب تل ابیب ابھی!
پاکستان جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے کبھی مالامال سمجھا جاتا تھا، اب اس کی رگوں میں دوڑتا سودی قرضوں کا تناسب وہاں پہنچ چکا جہاں ایمان گھٹ کر اک جوئے کم آب رہ گئی ہے!
وزیر خزانہ صاحب حال ہی میں خوب گرجے برسے ہیں۔ کہتے ہیں: ’ہم من حیث القوم جذباتی، تنگ نظر، عقل سوچ سمجھ سے عاری ہیں۔ اور پھر عقلیت کے جھنڈے گاڑتے انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام (قادیانی) کے نوبل پرائز کو وقعت نہ دینے پر قوم کو لتاڑا۔ انہوں نے (اپنی بیٹی) ملالہ کی عدم قبولیت پر شدید دکھ کا اظہار کیا اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے ’ارشاداتِ عالیہ‘ کی یاد دہانی کروائی۔ زیادہ آبادی پر ہمیں مطعون کیا۔ (چرچل کی طرح، جس نے برطانیہ کی ہندوستان پر حکمرانی کے دوران گندم کا دانہ قحط زدہ بنگالیوں تک نہ پہنچنے دیا کہ اتنے بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟ بھگتیں!) مفتاح صاحب نے معیشت سنوارنے کے لیے عاطف میاں قادیانی سے صلاح مشورے کا تذکرہ بھی فرمایا۔ جو عمران خان نے بڑی محبت سے لا لگایا تھا۔ قوم کے شور مچانے پر ہٹانا پڑا! (دی نیوز: 15 اگست)
یہ سارا تذکرہ سلمان رشدی قضیے میں اس لیے کرنا پڑا کہ دونوں جانب حکومت اور اپوزیشن ایمان دبائے چھپائے رہتی ہے تاکہ گورے کو ہوا بھی نہ لگے ہماری اللہ رسول کے لیے جذباتی وابستگی کی! 14 اگست، کنونشن سینٹر میں حیاباختہ ناچ گانے کی تقریب گواہ ہے۔ باقی قوم تو روبوٹ بنی ان کے نقش قدم پر چل، ناچ رہی ہے اپنا ایمان نگلے۔ حد تو یہ ہوئی کہ عمران خان صاحب ایمان کے حوالے سے جو مستقل بہکی بہکی باتیں کیے چلے جا رہے تھے، اب ملعون رشدی پر حملے پر تڑپ کر یکایک کفن پھاڑکر بول اٹھے:’مسلمانوں کا غصہ بجا مگر پھر بھی حملے کا کوئی جواز نہیں۔ میرے خیال میں یہ سخت ناگوار اور ہولناک (Terrible)، افسردہ غمگین (Sad) کر دینے والا (عمل) ہے!‘ گناہ کی شدت، رشدی کے جرم کی ناگواری ہولناکی پر رنجیدہ غمزدہ ہونے کی بجائے ’ریاست مدینہ‘ کی سیاست مچانے والے کی ہمدردی رشدی کے لیے امڈی پڑ رہی ہے۔ اُفٍ لکم!
آپ کے نزدیک رشدی پر حملہ بلاجواز ہے مگر آپ کو اف بھی کہہ دیں تو ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے سری لنکا بنانے کا جواز ہے؟ گستاخ رشدی سے ہمدردی پر اعتراض اٹھے، تو حسب دستور ’یوٹرن‘ فوراً لیا اور سارا بوجھ ’گارڈین‘ پر لاد دیا کہ سیاق سے ہٹ کر غلط پیرائے میں چھپ گیا۔ وہ کون سا لحاظ کرنے والے تھے۔ ’گارڈین‘ نے فوراً ٹویٹر پر چڑھ کر صدا لگا دی۔ ایڈیٹر نے کہا ہم انٹرویو کی رپورٹنگ کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں۔ جس میں انہوں نے ’عمرانی‘ خاص لفظ ’Absolutely Standby‘ استعمال کرتے ہوئے زور دیا کہ آپ پڑھ کر خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے غلط حوالہ (Misquote) نہیں دیا۔ (جو کہا وہی لکھا!) پوری امت میں تنہا عمران خان نے یہ ہولناک اعزاز اپنے سر یونہی نہیں لیا کہ جو زبان اسرائیلی وزیراعظم، امریکی صدر یا برطانوی، کینیڈین وزرائے اعظم کی ہے، وہی زبان یہ تڑپ کر بولے ہیں۔ (کرسی کے فراق میں) یہ بیان دنیائے مغرب میں عمران خان کا مقام یکایک بہت اونچا لے جائے گا۔ توہین رسالت کے نازک ترین مسئلے پر کرسی کے طلبگار کا اتنا غیرجذباتی، بے حس موقف بہت کچھ کہے دیتا ہے۔ (جس پر مودی اور بی جے پی بھی چپ رہے۔)
ہمارے آئین کی جن شقوں کو مغربی ختم کرنا چاہتے ہیں کیا یہ ان کی امیدیں برلانے کا عندیہ دینے کے مترادف نہیں؟ عمران خان کایہ خوفناک حد تک بولڈ بیانیہ پوری امت کے (خاموش) موقف سے ہٹ کر بلاسبب نہیں۔ نادیدہ بیرونی قوتوں کے بل پر پی ٹی آئی فساد اور تخریب پر آمادہ اور ملک کی چولیں ہلانے پر کمربستہ ہے۔ملک پہلے ہی ہلا ڈالنے والے سیلابوں، بلاو¿ں کے تھپیڑوں میں ہے۔یہ وقت قومی یک جہتی اور مغفرت طلب سجدوں کا ہے۔اسے نری موسمیاتی تبدیلی سے جوڑنا ایمانی حقائق اور اپنے گناہوںسے نگاہیں چرانے کے مترادف ہے۔ علمائے کرام، دینی جماعتیں، اہل قلم، باشعور طبقہ سیاست سے ہٹ کر خدارا رب کو راضی کرنے کے لیے، قوم کی رہنمائی کے لیے اٹھیں۔ شان رسالت پربھی ہم کسی غلطی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ غازی علم دین شہید کی داستان اور علامہ اقبال جیسے فلسفی اور شاعر کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں غرق رہنے کی کیفیت نوجوانوں میں تازہ کریں۔ قوم اور امت کی سرد مہری، اور خاموشی سسکنے، تڑپنے پر مجبور کر رہی ہے۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدہ¿ تصورات