وزیراعظم عمران خان ہفتہ رواں میں لاہور تشریف لائے وہ جب سے وزیراعظم بنے ہیں میرے خیال میں اندرون ملک سب سے زیادہ دورے انہوں نے لاہور کے کئے‘ یہ دورے انہیں کیوں کرنا پڑے؟ وہی جانتے ہیں یا وزیراعلیٰ عثمان بزدار جانتے ہیں‘ ہماری گزارش ان سے بس اتنی ہے جتنے دورے وہ لاہور کے کرتے ہیں اس سے آدھے دورے بھی وہ کراچی کے کرنا شروع کر دیں‘ کراچی اور سندھ کے حالات میں کم از کم اتنی بہتری ضرور آ سکتی ہے جتنی پنجاب میں ہے‘ پنجاب میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہیں‘ مگر پنجاب کے حالات بری یا بدترین حکمرانی کے باوجود سندھ کے حالات سے ہزار درجے بہتر ہیں‘ اگلے الیکشن اگر منصفانہ ہوئے جس کے امکانات ظاہر ہے نہ ہونے کے برابر ہیں‘ تو سندھ میں عوام کی جو حالت ہے سندھ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا‘ قومی و صوبائی ا سمبلیوں کی نشستوں کے اعتبار سے سندھ پیپلزپارٹی کے لئے شاید پنجاب بن جائے… مگر ایسے شاید نہ ہو‘ ظاہر ہے کسی ایک سیاسی جماعت کی اکثریت بھلا کہاں افورڈ ہو سکتی ہے‘ ایسی صورت میں منصفانہ انتخابات بھلا کہاں افورڈ ہو سکتے ہیں؟ لہٰذا بدترین کارکردگی کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے اگلے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا سندھ سے صفایا ہو جائے گا‘ بلکہ ہو سکتا ہے اس قدر بری کارکردگی کی بنیاد پر اس کی نشستیں سندھ میں مزید بڑھ جائیں‘ شاید پنجاب میں بھی بڑھ جائیں… جہاں تک وزیراعظم کے دورہ لاہور کا تعلق ہے جب بھی ان کے دورہ لاہور کی خبریں آتی ہیں سرکاری افسران خصوصاً اعلیٰ ترین سرکاری ا فسران کے گھروں میں ’’آیت کریمہ‘‘ اور ’’درود شریف‘‘ کی محفلوں کا انعقاد شروع ہو جاتا ہے‘ جبکہ وزیراعظم کا دورہ خیرخیریت سے گزرنے کے بعد جس طرح کی ’’محفلیں‘‘ پھر شروع ہو جاتی ہیں وہ ناقابل بیان ہیں‘ یہ ایک روایت بھی بن گئی ہے وزیراعظم کے دورہ لاہور کے فوراً بعد بڑے بڑے سرکاری افسران کے تبادلے کر دیئے جاتے ہیں‘ خصوصاً چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو تو اس رات نیند نہیں آتی ہو گی جب اگلے روز وزیراعظم کا دورہ ہوتا ہے‘ وہ بے چارے یقیناً ساری ساری رات سوچتے ہوں گے ہماری کون سی غلطی ہے جس کے نتیجے میں وزیراعظم ہمیں فارغ کر سکتے ہیں؟ جب انہیں اپنی کوئی غلطی یاد نہیں آتی ہو گی وہ مزید پریشان ہو جاتے ہوں گے کہ ایسی صورت میں تبدیلی کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے‘ میرے نزدیک کم از کم پنجاب میں دو آئی جیز کو تو صرف اس لئے فارغ کیا گیا تھا کہ ان کی کوئی غلطی نہیں تھی ایک ان میں کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز خان‘ دوسرے امجد جاوید سلیمی تھے‘ کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز اگلے روز اپنی مدت ملازمت پورے وقار کے ساتھ پوری کرنے کے بعد ر یٹائرڈ ہو گئے‘ ان سے پہلے امجد جاوید سلیمی بھی ریٹائرڈ ہو گئے‘ اپنے ماتحتوں اور دوستوں کے ساتھ دونوں کا رویہ بطور آئی جی اس قدر اچھا رہا مجھے یقین ہے ریٹائرمنٹ کے بعد دوستوں اور ماتحتوں میں ان کی قدروقیمت میں اضافہ ہی ہو گا… شکر ہے اس بار وزیراعظم کے دورہ لاہور کے بعد تبادلوں کی زد میں صرف سول افسران ہی آئے‘ البتہ میرے ذاتی نوٹس میں ہے پولیس افسران کے تبادلوں کی ایک فہرست بھی تیار ہے جو ایک خاص وجہ سے رکی ہوئی ہے فی الحال درجن بھر ڈپٹی کمشنرز کو تبدیل کر دیا گیا ہے‘ ان میں سے کچھ ڈپٹی کمشنرز کے بارے میں مبینہ اطلاعات تھیں ان کی تقرریاں کسی ’’سودے بازی‘‘ کے نتیجے میں ہوئی تھیں‘ ظاہر ہے ان کا تبادلہ ان کے لئے اب پریشانی کا باعث ہی ہو گا‘ ان بے چاروں نے اپنی ’’غربت‘‘مٹانے کا کام ابھی شروع ہی کیا تھا کہ تبادلوں کی زد میں آگئے‘ اتنی رقم بن نہ سکی جتنی ضائع چلی گئی… وزیراعظم عمران خان جس طرح اپنی سیاسی ٹیم پر نظر رکھے ہوئے ہیں کون کرپشن کر رہا ہے کون نہیں کر رہا؟ اس طرح لگتا ہے وہ کچھ بیورو کریٹس پر بھی نظریں رکھے ہوئے ہیں پنجاب میں ایک اعلیٰ پولیس افسر اپنی فطرت کے مطابق کرپشن کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ وہ بھی شاید وزیراعظم کی نظروں سے بچنے کے لئے اپنی فطرت دہرانے کی ابھی تک ہمت نہیں کر پا رہا‘ سابقہ حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں میں فرق یہ ہے کہ سابقہ حکمران خود ٹکا کر کرپشن کرتے تھے نیچے افسروں و ملازمین کو کھلے عام کرپشن کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہوتی تھی‘ عمران خان خود کرپشن نہیں کرتے‘ اس کا کوئی تصور بھی ان کے ہاں نہیں ہے مگر ان کے کرپشن نہ کرنے کے وصف کو بے شمار سرکاری افسران و ملازمین نے اپنی کرپشن کا باقاعدہ ایک جواز بنا لیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں وزیراعظم عمران خان کے حصے کی کرپشن بھی انہوں نے ہی کرنی ہے‘ اب اس سوچ کے حامل افسران کے ہر دو چار ماہ بعد اگر تبادلے کر دیئے جاتے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟ حرج صرف یہ ہے کہ ایسے افسران کو لگایا ہی کیوں جاتا ہے؟ کچھ افسران تو اس گندی سوچ کے حامل ہیں کسی اہم اور کمائو عہدے پر تعینات ہونے کے بعد کرپشن کی بہتی گنگا سے فوراً ہی ہاتھ دھو لیں‘ بلکہ پورا نہا دھولیں‘ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے موجودہ حکومت میں ان کی پوسٹنگ کا زیادہ سے زیادہ ’’ٹنیور‘‘ دو تین ماہ کا ہی ہوتا ہے‘ بلکہ ایسے واقعات بھی ہوئے کچھ افسر اپنی نئی تقرری پر اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے جا رہے تھے انہیں راستے میں ہی اطلاع مل گئی حضور واپس چلے جائیں آپ کے آرڈرز کینسل ہو گئے ہیں… جہاں تک سیاسی حکمرانوں کی اپنی کارکردگی کا تعلق ہے وہ اس لئے اس پر زیادہ دھیان نہیں دیتے انہیں یقین ہوتا ہے اگلی حکومت انہیں اول تو ملنی نہیں‘ اگر مل بھی گئی ظاہر ہے وہ کسی اہلیت یا کارکردگی کی بنیاد پر تو ملنی نہیں‘ لہٰذا کسی شعبے میں کوئی بہتری لانا‘ نظام کو درست کرنا‘ حتٰی کہ نیک نیتی اور اعلیٰ پروفیشنل ٹیم کے ساتھ نظام کو درست کرنے کی کوششیں ہی کرنا ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی‘ ہماری سیاسی حکومتوں کو اگر یہ یقین ہوتا اگلی بار انہیں ووٹ یا حکومت صرف اورصرف ان کی کارکردگی یا اہلیت کی بنیاد پر ہی ملنے ہیں خدا کی قسم یہ ملک اب تک ترقی کی عظیم ترین منازل طے کر گیا ہوتا‘ ہم قرضے لینے والوں کے بجائے قرضے دینے والوں میں شامل ہوتے!!