روسی رائٹر چیخوف دنیائے ادب کے چوٹی کے چند عظیم لکھاریوں میں سے ایک ہے۔ وہ 29 جنوری 1860ء کو پیدا ہوا اور 44 برس کے بعد تپ دق کے باعث 15 جولائی 1904ء کو دنیا چھوڑ گیا۔ پیشے کے اعتبار سے چیخوف ایک فزیشن ڈاکٹر تھا۔ اُس کا جنازہ روسی تاریخ اور عالمی ادیبوں کے سب سے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔ چیخوف کی تحریریں پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے کئی کردار ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً اُس کی ایک مشہور کہانی ’’دشمن‘‘ ہے۔ اس کہانی میں چیخوف نے برتر اور کمتر دو طبقوں کی فطری عادات کو قلم بند کیا ہے۔ کہانی کے مطابق ستمبر کی ایک تاریک رات میں نو بجے کے بعد کمتر طبقے کی بستی کا ایک ادھیڑ عمر ڈاکٹر اپنے چھ برس کے اکلوتے بیٹے کی ابھی ابھی ہونے والی موت سے بہت غمزدہ تھا۔ جونہی اُس کی بیوی اپنے بیٹے کی لاش دیکھ کر بے ہوش ہوکر گری عین اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈاکٹر نے آنسوئوں سے بھیگے چہرے اور دوائیوں سے بھرے ہاتھوں کے ساتھ دروازہ کھولا۔ اس جگہ پر اندھیرا تھا کیونکہ گھر کا واحد لیمپ بیہوش بیوی اور بچے کی لاش والے کمرے کے میز پر رکھا مدھم سی روشنی دے رہا تھا۔ آنے والا درمیانے قد کا خوبرو اور روشن چہرے کا مالک تھا جو اس کے اونچے طبقے سے ہونے کا ثبوت تھا۔ اُس نے پوچھا کیا ڈاکٹر گھر پر ہیں؟ ڈاکٹر نے کہا جی بتائیے! آنے والے نے اندھیرے میں ڈاکٹر کا ہاتھ ٹٹول کر زور سے مصافحہ کیا اور بہت خوشامدی لہجے میں بولا کہ آپ انسان دوست ہیں۔ میری بیوی سخت بیمار ہے۔ میں اپنی تیز رفتار گھوڑوں والی بگھی آپ کے دروازے تک لے آیا ہوں۔ میرے ساتھ چل کر میری بیوی کی جان بچائیے۔ وہ گفتگو سے بظاہر بہت سادہ لوح اور معصوم لگتا تھا۔ وہ ڈاکٹر کا ردعمل جانے بغیر اپنی پریشانی بتاتا رہا۔ اس نے کہا کہ آج رات میرا ایک دوست کھانے پر آیا۔ ہم تینوں باتیں کررہے تھے کہ میری بیوی نے اچانک چیخ ماری اور بیہوش ہوگئی۔ میں نے اور میرے دوست نے اُس کو ہوش میں لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اسی وقت میں آپ کی طرف بھاگا چلا آیا۔ اُس نے ڈاکٹر کو کوٹ پہن کر اپنے ساتھ جلد چلنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر بے حس و حرکت آنے والے کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ دراصل اس وقت نہ کچھ سن رہا تھا نہ کچھ سمجھ رہا تھا۔ اسے تو بس اپنے بیٹے کی موت نے ذہنی طور پر مفلوج کردیا تھا۔ ڈاکٹر نے سراٹھا کر کہا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا کیونکہ پانچ منٹ پہلے میرا اکلوتا بیٹا مرگیا ہے۔ آنے والے نے اس بری خبر سے خوفزدہ ہوکر ڈاکٹر کا ہاتھ چھوڑا اور بولا بہت افسوس ہوا۔ وہ پیچھے ہٹ کر چند منٹ تک دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ ڈاکٹر سمجھا کہ وہ واپس جانے لگا ہے لیکن آنے والے نے ڈاکٹر کا دامن پکڑ لیا اور گریہ و زاری کرنے لگا کہ آپ جس شدید صدمے میں ہیں اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے لیکن اگر آپ میرے ساتھ نہیں جائیں گے تو میری بیوی مرجائے گی۔ ڈاکٹر نے آنے والے کے اِس انتہائی خودغرض رویئے کو نفرت سے جھٹکا اور واپس دوسرے کمرے میں اپنی بیہوش بیوی اور مردہ بیٹے کی لاش کے پاس چلا گیا۔ کچھ دیر بعد جب اس کی بیوی ہوش میں آئی تو وہ دروازہ بند کرنے کے خیال سے دوبارہ اندھیرے کمرے میں آیا۔ ڈاکٹر کو یہ دیکھ کر بے حد حیرت ہوئی کہ آنے والا ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی دوبارہ آہ و زاری شروع کردی۔ ڈاکٹر نے ہر طریقے سے انکار کیا لیکن آنے والے کی منت سماجت، خوشامد اور چاپلوسی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ بالآخر ڈاکٹر نے دوائیوں کا بکس اٹھایا اور بے دلی سے کوٹ پہنتا ہوا اُس کے ساتھ گلی میں آگیا۔ آنے والے نے زندگی بھر کے تشکر آمیز رویئے کے ساتھ انتہائی نرم لہجے میں ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا اور چلتے چلتے اسے کوٹ پہنانے میں بھی مدد کی۔ جب ڈاکٹر اس کے ساتھ بگھی میں جارہا تھا تو ڈاکٹر نے سوچا کہ میں کتنا سنگدل ہوں لیکن پھر اس نے سوچا کہ یہ بہت پریشان تھا تبھی میری اتنی منت سماجت کررہا تھا۔ جب بگھی امیر آدمی کے گھر پہنچی تو وہاں مکمل خاموشی تھی۔ بیوی کے کمرے تک پہنچتے پہنچتے امیر آدمی کے ماتھے پر فکرمندی کی شکنیں نمودار ہوئیں۔ اس نے ڈاکٹر کو کمرے سے باہر کھڑا کیا اور خود اندر گیا لیکن چند ہی لمحوں کے بعد واپس آیا اور چیخ چیخ کر اپنی بیوی اور دوست کو گالیاں دینے لگا۔ وہ کہنے لگا کہ لگتا ہے اس کی بیوی نے ڈرامہ کیا تھا اور وہ اس کے دوست کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ یہ سن کر ڈاکٹر کو اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کا غم دوگنا لگنے لگا۔ ڈاکٹر نے ترش لہجے میں کہا کہ مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔ اب امیر آدمی کا رویہ ڈاکٹر کے لیے بالکل بدل چکا تھا۔ وہ ڈاکٹر کو انتہائی سردمہری سے برا بھلا کہنے لگا اور بولا کہ کیا تمہیں پتا نہیں کہ میں بیوی کے بھاگ جانے سے کتنا دکھی ہوں، تم کمتر طبقے کے لوگوں کو ہمارے طبقے کے دکھوں کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر اس کی شکل کو دیکھ رہا تھا کہ کیا یہ چند منٹ پہلے والا وہی امیر آدمی ہے جو میری منتیں کررہا تھا اور میں انسانیت کے ناتے اپنے اکلوتے بیٹے کی لاش اپنی اکیلی بیوی کے پاس چھوڑ کر چلا آیا۔ کہانی کے انجام پر امیر آدمی ڈاکٹر کو ذلیل کرکے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس کہانی سے پتا چلتا ہے کہ اونچے طبقے کو جب اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے تو وہ کس طرح کمتر طبقے کی منت سماجت کرتا ہے اور لاڈ اٹھاتا ہے۔ جونہی اونچے طبقے کی ضرورت ختم ہوتی ہے وہ کمتر طبقے کو لات مار دیتا ہے۔ ہمارے سیاسی ماحول میں سیاسی لیڈروں اور عوام میں یہ دونوں کردار دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب سیاسی لیڈروں کو ہڑتالوں، دھرنوں، جلسے جلوسوں اور ووٹوں کے لیے عوام کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ملکی فلاح و بہبود کے فرشتے معلوم ہوتے ہیں لیکن جونہی وہ اِن مراحل سے گزر کر حکومت میں پہنچتے ہیں تو وہ عوام کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اگر عوام ان کے سامنے اپنی مصیبتوں کا دُکھڑا روئے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ عوام کو حکومت کی پریشانیوں کا کوئی احساس نہیں ہے، عوام کیا جانے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ اگر عوام مہنگائی کی بربادی کا ذکر کرے تو حکمران جواب دیتے ہیں کہ وہ اقتدار میں رہ کر ان سے زیادہ مصیبت میں ہیں۔ اگر عوام ڈالر کی تباہ کن اڑان کی بات کرے تو حکمران کہتے ہیں کہ عوام کو اکنامکس کا کچھ علم نہیں۔ جب حکمرانوں کو احساس ہوجاتا ہے کہ عوام اب ان کے مفاد کی ضرورت نہیں ہیں تو وہ ایسی رعونت والا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ عوام مکمل بے عزت ہوکر اپنے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یوں کچھ عرصے بعد نئے انتخابات کا سیلاب پرانی کہانی دہرانے کے لیے پھر سے امڈ آتا ہے۔ چلئے انتخابی سال 2023ء کا انتظار کرتے ہیں۔