مجھے نہیں معلوم سابق وزیراعظم عمران خان امریکہ سے اتنے ناراض کیوں ہیں؟ وہ چونکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ناراض ہوجاتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں ممکن ہے وزیراعظم بننے کے بعد جب اُنہوں نے امریکہ کا دورہ کیا ہو تو کسی امریکی دعوت میں اُن کے لیے ’’دیسی مرغی‘‘ نہ بنائی گئی ہو، دیسی مرغی اُن کی کمزوری ہے، اُن کے لیے کوئی کھانے کا اہتمام کرے، بیسیوں ڈشیز اُن کے لیے تیار کروائی گئی ہوں، مگر دیسی مرغی اُن میں نہ ہو وہ اُس کھانے کو کھانا ہی نہیں سمجھتے، … مجھے یاد ہے بہت سال قبل ہمارے محترم بڑے بھائی سابق وزیر جنگلات پنجاب سبطین خان نے میانوالی میں ایک جلسے کے بعد اُن کے اعزاز میں اپنے گائوں پپلاں میں واقع اپنی حویلی میں شاندار عشائیے کا اہتمام کررکھا تھا، اُن دنوں خان صاحب کی اپنے کزنوں حفیظ اللہ نیازی اور انعام اللہ نیازی کے ساتھ صلح تھی، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حامد میر بھی اُس عشایے میں تھے، میں اُن کے ساتھ ہی بیٹھا تھا، ایسی ایسی شاندار اور مزیدار ڈشیز اُس روز تیار کی گئی تھیں کم ازکم میں نے تو اس سے قبل ایسا شاندار کھانا نہ دیکھا نہ کھایا تھا، تیتر، بٹیر، چشمہ بیراج کی مچھلی، ہرن کا گوشت، سالم روسٹڈ بکرے جن کے پیٹوں میں چاول اور ڈرائی فروٹ بھرے ہوئے تھے، تلور، پالک گوشت ، مٹن کنہا، اس کے علاوہ قیمے والے نان، اور اعلیٰ اقسام کے میٹھے بھی تھے ۔ ایسے شاندار کھانوں اور تواضح پر مہمان عش عش کراٹھے، ہرکوئی میزبان کا شکرگزار ہورہاتھا، ہرکوئی کھانوں کی تعریف کررہا تھا، … شاید حفیظ اللہ نیازی نے عمران خان سے کہا ’’یار عمران آج تو سبطین خان نے کھانے والی اخیر ہی کردی ہے‘‘ …خان صاحب بولے ’’خاک اخیر کردی ہے، دیسی مرغی تو اس نے بنوائی نہیں ‘‘…تو اب ایسے ہی ازرہ مذاق میں یہ سوچ رہاتھا ہوسکتا ہے دورہ امریکہ میں کسی امریکی سرکاری عشائیے میں خان صاحب کے لیے دیسی مرغی نہ بنوائی گئی ہو اور وہ یہ بات دل میں رکھ کر بیٹھ گئے ہوں، دل چھوٹا ہو تو ایسی باتیں دل سے نہیں نکلتیں۔ اک روز وہ بڑے اچھے موڈ میں تھے، میں نے اُن سے کہا ’’خان صاحب یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کے گھر سے اکثر مہمان سادہ پانی کے گھونٹ سے بھی محروم رہتے ہیں، جوآپ کے بہت قریب ہوں اُنہیں زیادہ سے زیادہ چائے کی ایک پیالی نصیب ہوتی ہے، اگر کسی مہمان کے لیے چائے کے ساتھ بسکٹ آجائیں تو اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے وہ مہمان آپ کے بہت قریب ہے، یا وہ مہمان شوکت خانم ہسپتال یا پی ٹی آئی کے لیے کروڑوں روپے چندہ دیتاہے، مجھے یاد ہے ایک بار خان صاحب نے مجھے لاہور سے اسلام آباد بلایا، حکم یہ تھا جلدی پہنچو، میں سپیڈو سپیڈ بنی گالا پہنچا، راستے میں، میں کسی جگہ نہیں رکا، مجھے سخت بھوک لگی تھی، خان صاحب سے میں نے کہا ’’مجھے سخت بھوک لگی ہے‘‘۔ انہوں نے ملازم سے کہا ’’چائے لائو‘‘ …اگلے ہی لمحے ملازم ٹھنڈی چائے لے آیا، مجھے لگا شاید کچھ دیر پہلے کوئی اور مہمان آیا تھا اُس نے جو چائے نہیں پی تھی وہ ملازم نے میرے آگے لاکر رکھ دی ہے، ٹھنڈی چائے کا پہلا گھونٹ میں نے لیا سمجھ ہی نہیں آرہی تھی یہ چائے ہے یا شکنجبین ہے؟۔مجھے بڑا غصہ تھا کہ میں نے خان صاحب سے کہا مجھے سخت بھوک لگی ہے اور اُنہوں نے ملازم کو حکم دیا چائے لے آئو، اور وہ خالی چائے لے آیا، سو چائے کا پہلا گھونٹ لیتے ہی میں نے اُن سے کہا ’’خان صاحب ویسے خالی چائے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے‘‘ … میرا خیال تھا میرے اِس طنز پر وہ شرمندہ ہوں گے، وہ ملازم سے کہیں گے بھئی ساتھ کچھ بسکٹ یا سینڈوچز وغیرہ ہی لے آئو‘‘ …مگر اُنہوں نے فرمایا ’’ہاں توفیق تم بالکل ٹھیک کہتے ہو، میں تو پیتا ہی خالی چائے ہوں‘‘ … اپنے گھر میں وہ یقیناً خالی چائے سے بھی گزارہ کرلیتے ہوں گے لیکن کسی کے گھر جائیں وہاں بیسیوں ڈشوں کے ساتھ ’’دیسی مرغی‘‘ اگر نہ ہو، وہ اکثر اس کا غصہ کرجاتے ہیں، سو پتہ نہیں کیوں میں اس وہم کا شکار ہوں امریکہ کے ساتھ اُن کی ناراضگی کے اسباب میں ایک سبب کہیں ’’دیسی مرغی‘‘ ہی نہ ہو،… ویسے وہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں اپنی جھوٹی انا کو بعض اوقات اِس قدر اہمیت دیتے ہیں بندہ حیران رہ جاتا ہے، کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے امریکہ کے ساتھ خان صاحب کے تعلقات کی خرابی کی ابتداء شاید اِس پر نہ ہوئی ہو کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے منتخب ہونے کے بعد خان صاحب کو کال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، یا ممکن ہے خان صاحب نے اُنہیں کال کی ہو اور اُنہوں نے سننے کی ضرورت محسوس نہ کی ہو، …اِس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، مگر خان صاحب نے اسے بہت سیریس لیا ہوا تھا، بلکہ سچ پوچھیں اسے اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہوا تھا، جس کا اظہار وہ کچھ نجی محفلوں میں بھی کرتے رہے، امریکہ کے لیے دل میں بغض پالنے کا میرے نزدیک یہ کوئی مناسب جواز نہیں تھا، ممکن ہے کچھ عرصے بعد امریکی صدر اُنہیں فون کرلیتے، مگر خان صاحب کو اُن کے فون کا اتنی بے چینی وبے صبری سے انتظار تھا کہ اُن سے مزید صبر نہ ہوسکا اور اُنہوں نے اپنی تقریروں میں غیرضروری طورپر امریکہ کے خلاف باتیں کرنا شروع کردیں، اُن کا یہ رویہ ہرگز اُن کے منصب کے شایاں شان تھا نہ ہی ہماری خارجہ پالیسی اس کی متحمل ہوسکتی تھی، وزارت خارجہ کے کچھ معاملہ فہم اعلیٰ افسران نے اشاروں کنایوں میں اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی بھی، مگر خان صاحب کا ایک ہی روایتی جواب ہوتا تھا ’’یورپ اور امریکہ کو میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں‘‘ …خوامخوا یہ وہم اپنے دل میں اُنہوں نے پال رکھا تھا کہ امریکہ اُن سے خوش نہیں ہے اور وہ کسی بھی وقت اُن کی حکومت گرا سکتا ہے، پھر اُن کا یہ وہم اُن کا ’’یقین‘‘ بن گیا۔ اس دوران ایک مبینہ مراسلہ آگیا جس کا بغور جائزہ لیے بغیر، اُس کی سفارتی حیثیت کو جانچے بغیر وہ اُسے اُٹھا کر ’’سیاسی مارکیٹ‘‘ میں لے آئے اور اُسے اپنے حق میں کیش کروانا شروع کردیا، وہ جانتے تھے اُن کی چارسالہ پرفارمنس سے لوگ ذرا خوش نہیں ہیں، تبدیلی کے نام پر ہرشعبے میں وہ تباہی لے کرآئے، ملک میں غربت اور کرپشن مزید بڑھ گئی، لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے، مہنگائی نے لوگوں کو خودکشیوں اور اپنے بچے تک فروخت کرنے پر مجبور کردیا، ادارے مزید تباہ ہوتے جارہے تھے، پنجاب کا بُزدار نے بیڑا غرق کرکے رکھ دیا تھا، بلکہ خان صاحب کی جوکارکردگی تھی اکثر لوگ اب یہ کہتے تھے ’’ایک بزدار مرکز میں لاکر بٹھا دیا گیا اور اُس نے اپنے جیسا ایک بزدار پنجاب میں لاکر بٹھا دیا ‘‘… یقین کریں ان حالات میں ہماری اپوزیشن اگر استعمال نہ ہوتی، دو ’’ہاتھیوں‘‘ کی لڑائی میں نہ گُھستی ، یہ دیوار اپنے وزن سے ایسی گرنی تھی شاید ہی دوبارہ اُسے کوئی اُٹھا پاتا، پر افسوس اپوزیشن نے مستقبل میں خان صاحب کے کچھ متوقع فیصلوں سے خوفزدہ ہوکر اپنے پائوں پرکلہاڑی مارلی، … اب جو حالات پیدا ہورہے ہیں، خانہ جنگی کے جو اشارے مِل رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں لیکن اگر الیکشن ہوئے مجھے خدشہ ہے ایک مشکوک خط وامریکہ مخالف بیانیہ، اپوزیشن کی ساری منصوبہ بندیوں کوکہیں خاک میں نہ ملادے اور خان صاحب کی ساری نااہلیوں کو لوگ کہیں فراموش نہ کردیں!!