شہبازشریف نے تخفیف غربت کی وزیر شازیہ مری سے ملاقات کی ہے اور غربت کے خاتمہ کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس حکومت نے آنے کے بعد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دوبارہ سے شروع کیا ہے۔ پاکستان میں جس تیزی سے غربت بڑھ رہی ہے اسے کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بہت کامیابی سے چلایا گیا تاہم اس پروگرام کے ذریعے ماضی میں بہت سی بااثر شخصیات نے مال بنایا۔ غریبوں کے پیسے کو اپنے ذاتی فائدے اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔وزیرِ اعظم شہبازشریف نے بلوچستان دورے کے دوران مستحق افراد کی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شمولیت اور طالبات کی تعلیم کو یقینی بنانے کیلئے وظائف و والدین کو امداد کا اعلان کیا تھا۔ اس ملاقات میں وزیرِ اعظم کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سے گزشتہ حکومت کی طرف سے بغیر تحقیق کے نکالے گئے آٹھ لاکھ بیس ہزار لوگوں کیلئے اپیل کے مجوزہ طریقہ کار پر بھی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے یہ ہدایت بھی جاری کر دی کہ ایسے مستحق افراد جو بغیر کسی وجہ کے نکالے گئے انکی اس پروگرام میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ تخفیف غربت کے لیے ان کی کوششوں کو یقینی طور پر سراہنا چاہیے لیکن تخفیف غربت کے لیے جن لوگوں نے کوششیں کی ہیں اور دنیا کو کامیاب ماڈل دیے ہیں ان کے تجربات سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ ایسے ہی ایک پاکستانی فرد کا نام ڈاکٹر امجد ثاقب ہے جنہیں اس بار نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان میں غربت کو ختم کرنے کا پروگرام انتہائی کامیابی سے چلایا ہے۔ ان خدمات کی وجہ سے یہ ملک کے لیے ایک اعزاز ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ غربت ختم کرنے کے لیے ان کے ماڈل کو حکومتی سرپرستی میں آگے بڑھایا جائے تو بہت سے خاندانوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا جا سکتا ہے۔ اس پروگرام کی خوش آئند بات ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب سے میری ایک ہی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ایک فنڈ ریزنگ کی تقریب تھی جس میں مجھے اے پی پی کے محمد عبداللہ نے خاص طور پر شرکت کی دعوت دی تھی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اس وقت اخوت یونیورسٹی بنا رہے تھے اور اس کے فنڈز اکٹھے کر رہے ہیں۔ آج ان کا یہ منصوبہ کامیابی سے شروع ہو چکا ہے جس میں پورے پاکستان سے ہونہار طالب علم مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا مائیکرو فنانس کا منصوبہ اخوت بغیر سود کے قرضوں کی فراہمی کر رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے 99 فیصد سے بھی زائد افراد اپنے قرض واپس دے رہے ہیں۔
نوبل امن انعام حاصل کرنے والے امجد ثاقب کا تعلق فیصل آباد کے ایک گاوں سے ہے۔کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے بعد سول سروس میں جانے کا فیصلہ کیا اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے ایک اچھے افسر کے طور پر اپنی انتظامی صلاحیتوں کو منوایا۔ سرکاری ملازمت کے دوران انہیں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کے جنرل منیجر کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب ڈاکٹر امجد کو غربت کے مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی غربت کے خاتمے کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے غیر سرکاری فلاحی تنظیم اخوت کی بنیاد رکھی اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے دس ہزار روپے کے معمولی سرمائے سے غریب لوگوں کو بلا سود قرضے دینے کا آغاز کیا۔ آج ان کا ادارہ سود
کے بغیر چھوٹے قرضے دینے والا دنیا کا ایک بہت بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ اخوت تنظیم بلا سود قرضوں اور پیشہ ورانہ رہنمائی کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ اخوت نادار اور ضرورت مند لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے کے لیے بیس سے پچاس ہزار تک کے بلا سود قرضے فراہم کرتا ہے۔ یہ قرضے بغیر کسی لمبی چوڑی تفتیش کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک سادہ درخواست اور شخصی ضمانت کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی برس میں اخوت تنظیم اربوں روپے مالیت کے بلا سود قرضے غریب اور پسماندہ لوگوں میں تقسیم کر چکی ہے اور لاکھوں غریب خاندان مستفید ہو چکے ہیں۔ اخوت پاکستان کے صوبوں کے علاوہ فاٹا، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے کئی علاقوں تک پھیل چکا ہے۔ اخوت کی طرف دیے گئے قرضوں سے خواتین اور ملک کی اقلیتی برادریاں بھی مستفید ہوئی ہیں۔ اخوت کا ادارہ کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کے غریب لوگوں کی مدد کے لیے گرجا گھروں میں خصوصی فلاحی تقریبات کا اہتمام بھی کرتا ہے۔اس فلاحی ادارے کو پاکستانی مخیر حضرات کی بڑی تعداد سپورٹ کرتی ہے۔ یہ ادارہ کاروبار کرنے کے متمنی خواتین و حضرات کی مدد کرنے کے علاوہ گھر بنانے، بچوں کی تعلیم یا بچوں کی شادی کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کے لیے قرضے حاصل کرنے کے خواہش مند نادار افراد کی بھی مدد کرتا ہے۔
اخوت کے ماڈل کو دنیا کے کئی ملکوں اور کئی یونیورسٹیوں میں سٹڈی کیا جا رہا ہے۔ اخوت نے پاکستان کی قومی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے غریب لوگوں کی مدد کے لیے شروع کی جانے والی کئی سرکاری فلاحی سکیموں کی شفاف تکمیل کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔اس وقت اخوت کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد ثاقب کی زیر نگرانی قرضوں کی فراہمی کے کور پراجیکٹ کے علاوہ متعدد فلاحی منصوبے بھی چلائے جا رہے ہیں۔ ان میں اخوت کلاتھ بنک، اخوت ہیلتھ سروسز، اخوت ڈریمز پراجیکٹ، اخوت ایجوکیشن اسسٹنس پروگرام اور اخوت فری یونیورسٹی کے علاوہ یہ ادارہ خواجہ سرا کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور ان کی دیکھ بھال کا منصوبہ بھی چلا رہا ہے۔ گزشتہ چودہ برس میں اخوت تنظیم 16 ارب اور75 کروڑ روپے مالیت کے بلا سود قرضے غریب اور پسماندہ لوگوں میں تقسیم کر چکی ہے۔کوئی بھی شخص (مرد یا خاتون)اپنے علاقے سے کسی معزز شخصیت کی ضمانت پر چھوٹے کاروبار کے لیے قرض لے سکتا ہے اور جب ان کا روزگار چلنے لگتا ہے تو وہ آسانی سے جتنی چاہیں قسط کی ادائیگی کر کے قرض واپس کرسکتے ہیں اور اس کے لیے کافی وقت دیا جاتا ہے۔بچے بچیوں کی شادی کے لیے بھی قرضہ حسنہ حاصل کرنے کی سہولت موجود ہے اور اس کے لیے خاص گارنٹی بھی نہیں۔اس کے علاوہ اخوت فانڈیشن سے علاج معالجے اور تعلیم کے لیے بھی قرض کی سکیمیں موجود ہیں۔ لاہور کے بعض علاقوں میں بچوں کی پیشہ ورانہ اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لیے سینٹرز بھی قائم کیے گئے جہاں مفت تعلیم وتربیت دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے خیال میں اگر پچاس فیصد پاکستانی بقیہ پچاس فیصد پاکستانیوں کی مدد کا مخلصانہ تہیہ کر لیں تو لوگوں کی مشکلات میں بہت حد تک کمی لائی جا سکتی ہے، میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستانی دیانتدار قوم ہے، اسی لیے تو لاکھوں لوگ چھوٹے چھوٹے قرضوں سے اپنے کاروبار سیٹ کر کے ہمیں قرضے واپس کر رہے ہیں بلکہ اخوت کے ڈونر بن رہے ہیں۔ اخوت کا ماڈل روایتی اقتصادی تصورات کے ذریعے سے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ سودی قرضوں کی معیشت مسابقت، منافع کے لالچ اور مارکیٹ فورسز کے تحت کام کرتی ہے جبکہ وہ ایثار، قربانی اور دوسروں کی مدد کر کے ان کو ان کے پائوں پر کھڑا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ڈاکٹر امجد ثاقب نے مزید بتایا کہ چند ہزار سے شروع ہونے والا یہ پروگرام 162 ارب تک پہنچ چکا ہے اور مستقبل میں اس سے بھی زیادہ ہوگا۔اس وقت یہ نیٹ ورک صرف پاکستان میں موجود ہے، جسے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیلارہے ہیں۔ڈاکٹر امجد ثاقب کے مطابق اخوت فائونڈیشن ایک بہت بڑی یونیورسٹی بنا رہی ہے جس میں چاروں صوبوں کے بچوں کو داخلہ دیاجائے گا اور داخلے سے لے کر میٹرک تک تعلیم مفت فراہم کی جائے گی جبکہ دس سال بعد جب طلبہ تعلیم حاصل کر کے کوئی پیشہ اپنائیں گے تو وہ اپنی فیسیں ادا کریں گے تاکہ مزید بچوں کو مفت تعلیم دی جاسکے۔
نوبل امن انعام 2022 کے لئے دنیا بھر سے 343 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں 251 انفرادی شخصیات اور 92 ادارے شامل ہیں۔ ان ناموں میں ایک نام ان کا بھی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام غربت کے خاتمے کیلئے کوشش اور انسانیت کی خدمت پر نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔ امن کا انعام کس کو دیا جائے گا، اس کا حتمی فیصلہ ناروے کے شہر اوسلو میں قائم نوبیل کمیٹی کے پانچ مستقل ارکان کریں گے جس کا اعلان اکتوبر میں کیا جائے گا۔
وفاقی حکومت، چاروں صوبائی حکومتیں، کشمیر اور گلگت بلتستان ڈاکٹر امجد ثاقب سے رہنمائی حاصل کر کے اپنے اپنے انداز میں اس پروگرام کو شروع کر سکتے ہیں تاکہ تخفیف غربت کے پروگرام کو کامیابی سے چلایا جا سکے۔