صنعتی انقلاب نے ترقی کی رفتار میں اضافہ کیا ماہ و سال میں طے ہونے والا سفر ہفتوں اور دنوں تک سمٹتے ہوئے گھنٹوں تک آن پہنچا ہے۔ انسان کی سب سے اہم ایجاد پہیہ ہے جس نے بھاپ کی طاقت سے مل کر انجن ترتیب دیا اور پھر انسانی زندگی میں تعمیروترقی کا عظیم الشان سفر شروع ہوا جو ہمیں ڈیجیٹل ایج تک لے آیا ہے اب مصنوعی ذہانت اور اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے انسان تحقیق و جستجو کی لامتناہی وسعتوں تک فتح حاصل کر چکا ہے عالم حضروبالا کی شاید ہر شے اس کی دسترس میں آ چکی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ، یعنی تعمیروترقی نے بہت سے خوفناک مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں عالم فطرت میں مداخلت اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نے موسمیاتی بحران، بھوک و افلاس، شدید غربت، بنیادی انسانی حقوق کی پامالیاں، انسانی سمگلنگ، منشیات کی بھرمار وغیرہ قسم کے سنجیدہ مسائل کو جنم دیا ہے۔
سنجیدہ فکر کے حاملین رہنمائوں نے 2015 میں ایسے معاملات کے حل کے لئے مل بیٹھ کر غوروفکر کیا اور عالمی لیڈروں نے 17 اہداف مقرر کئے جنہیں ’’عالمی اہداف‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ طے پایا کہ ان 17 اہداف کے حصول کے نتیجے میں 2030 تک سرسبز،منصفانہ اور بہتر دنیا کی تعمیرممکن ہو جائے گی۔ دنیا کو درپیش مسائل جس قدر گمبھیر ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے، ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اسی قدر بہتر اور فعال اپروچ کی ضرورت ہے۔ ’’عالمی اہداف‘‘ اسی سوچ کا عکس اور جواب ہے کہ ہمیں معاملات کو سدھارنے اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے دوراندیشی اور فعالیت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہماری دنیا اس سے پہلے بھی مختلف قسم کے گمبھیر مسائل کا سامنا کرتی رہی ہے اور ان سے نمٹنے کی مؤثر کاوشیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔
پائیدار ترقیاتی اہداف میں 2030 تک غربت کا خاتمہ، بھوک کا خاتمہ، بہتر صحت، کوالٹی ایجوکیشن، صنفی مساوات، صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولیات کی فراہمی، باکفایت، سستی اور صاف بجلی کی فراہمی، پائیدار معاشی ترقی اور فی کس آمدنی کو بڑھانا، بچوں پر جبروتشدد کا خاتمہ، مشکل حالات میں کام کرنے کی تدبیر، پائیدار صنعتی عمل، تحقیق میں بہتری، اطلاعات و ابلاغ تک رسائی، پائیدار شہر اور کمیونٹیز، عدم مساوات کا خاتمہ، زیرآب حیات، زمینی حیات،امن و انصاف اور مضبوط اداروں کا قیام، اور ان اہداف کے لئے اشتراک عمل جیسے معاملات شامل ہیں۔ بیان کردہ 17 اہداف ایسے ہیں جن کا سامنا ہر کوئی ملک کسی نہ کسی انداز میں کر رہا ہے۔
ہم ہدف 8 کی بات کریں جو پائیدار معاشی ترقی اور فی کس آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ معاشی نمو اور پیداواریت میں بڑھوتی پر مشتمل ہے تو کیا کوئی بھی ملک اس ہدف سے باہر تصور کیا جا سکتا ہے۔ معاشی ترقی، بحیثیت قوم اور فی کس آمدنی میں اضافہ بحیثیت فرد ہر ملک اور قوم اور ہر شہری کا مطلوب و مقصود ہے۔ آبادی میں بے بہا اضافے کے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اشیاء ضروریہ کی فراہمی اور ان کاحصول دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملات کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ تک جانے سے روکنے کے لئے معاشی تعمیروترقی کی راہیں کھولی جائیں اور سرعت کے ساتھ غربت کے خاتمے کی کوششیں کی جائیں کیونکہ وسائل کی قلت نہ صرف عامتہ الناس کے مابین عدم اعتماد اور اقوام کے درمیان جنگ و جدل کو فروغ دیتی ہے بلکہ غربت اور وسائل کی کمی امن دشمن گروہوں کو آمادہ فساد بھی کرتی ہے غریب نوجوان، ایسے ہی گروہوں کے ہتھے چڑھ کر سمگلنگ، جنسی جرائم اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ گویامعاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کا تعلق عمومی امن عامہ اور عالمی امن کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
حیرت انگیز عالمی ترقی، ایجادات و انکشافات نے نہ صرف دنیا کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ شخصی زندگی اور سماجی ماحول میں بھی انقلاب برپا ہو چکے ہیں۔ بہت زیادہ ماضی میں جھانکنے کی ضرورت نہیں ذرا اپنی تسلی کے ابتدائی ایام کو دیکھ لیں مرغی انڈہ کی مثال لیں ہمارے بچپن کے زمانے میں مرغیاں ہفتہ یا اس سے زیادہ انڈے دے کر ’’کڑک‘‘ پر چلی جاتی تھیں۔ پھر ہم نے برائلر، لیئر اور شیور کی آمد کا مشاہدہ کیا۔سال کے 365 دن لگاتار بغیر کسی وقفے کے مرغیوں نے انڈے دینا شروع کر دیئے بلکہ یہ کہنا زیادہ صائب ہو گا کہ ’’ہم نے جدید ٹیکنالوجی کے باعث مرغیوں سے 365 روزانہ کی بنیاد پر انڈے حاصل کرنا شروع کر دیئے‘‘۔ گائیوں بھینسوں سے دودھ کا حصول ہو یا زمین سے اجناس، درختوں سے پھل وغیرہ جیسے معاملات میں بڑھوتی اور شاندار بڑھوتی دیکھنے میں آئی مشینی فارمنگ نے زراعت کے شعبے انقلاب برپا کر دیا۔ ہمارے دور طالب علمی میں جاپان کا جیل پین ایک عیاشی سمجھا جاتا تھا خاصا مہنگا ہوتا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے چینی جیل پین کی دستیابی نے معاملات الٹ پلٹ کر رکھ دیئے۔بہت سی ایسی اشیاء جو کچھ عرصہ قبل مہنگی اور امراء کے لئے مختص سمجھی جاتی تھیں آج ہر ادنیٰ اور اعلیٰ کی دسترس میں ہیں۔ ہمارے دور میں پارکر اور شفر کے پین صرف ماموں یا چچا دبئی یا انگلینڈ سے تحفے کے طور پر بھجواتے تھے ان کی خریداری، یہاں پاکستان میں آسان نہیں تھی ہمارے لئے ڈالر اور ایگل کے پین ہی کافی سمجھے جاتے تھے۔ آج ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کے باعث یہ سب کچھ آسانی سے دستیاب ہے۔ دنیا میں ہر شے کی ریل پیل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے معاملات دگرگوں بھی ہوچکے ہیں۔ توانائی کے بے تحاشا استعمال نے فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مصائب کو جنم دیا ہے۔ آلودگی نے صاف پانی کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے فطرت نے کرہ ارض پر 2/3 پانی انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سٹور کر رکھا ہے لیکن ہماری حماقتوں نے معاملات میں بگاڑ پیدا کردیا ہے۔ قدرت نے لامحدود رزق زیرآب ہمارے لئے رکھ دیا ہے لیکن ہم ہیں کہ ہم نے زیرآب حیات کا ناطقہ بھی بند کرنے میں کسر نہیں چھوڑی ہے۔ غرض انسان نے جہاںصنعتی ترقی کے ذریعے، وسائل میں حیرت انگیز اضافہ کر لیا ہے سہولیات اور آسائشوں پر دسترس حاصل کر لی ہے۔ قدرت کے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے، قدرت کی عطا کردہ ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے تعمیروترقی کی حیرت انگیز منزلیں سر کر لی ہیں وہیں بہت سے مسائل کو جنم بھی دیا ہے۔ ’’پائیدار ترقیاتی اہداف‘‘ کے حصول کے ذریعے 2030 تک دنیا کو ایک بہتر، صاف شفاف کرہ ارض بنانے کا عزم ایسے ہی مسائل کے حل کے لئے ایک سوچا سمجھا اور قابل تحسین راست قدم ہے۔ بیان کردہ 17 اہداف میں آٹھواں ہدف یعنی پائیدار معاشی ترقی ایک ایسا ممکن الحصول خواب ہے جس کی تعبیر میں انسانوں کی بھلائی پوشیدہ ہے اس ہدف کا حصول ذرا مشکل توہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ بے پناہ فطری و قدرتی وسائل کی دستیابی اور حیرت انگیز انسانی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اس ہدف کا حصول ہماری آئندہ نسلوں کی بہتری اور بڑھوتی کا ضامن ہے۔