ایاک نعبد و ا یاک نستعین کی دعا کے ساتھ تحریک ِ انصاف کے قیام کا مقصد ملک میں ایک منصفانہ معاشی اور سماجی نظام قائم کرنا تھا۔ اقبال کی روحانی جمہوریت کا فلسفہ اور اسلام کا منصفانہ طرزِ حکمرانی پارٹی کا بنیادی مئوقف اتھا۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے سیاسی انارکی اور عدم استحکام عروج پر تھا۔ قوم و ملک جس مایوسی او ر بدحالی کی حالت میں تھے ایسے میں ضرورت ہی ایک ا یسی سیاسی جماعت کی تھی جو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکے۔ اُس وقت جو لو گ عمران خان کے دست و بازو بنے وہ ملک میں مثبت تبدیلی کے حقیقی خواہش مند تھے ۔ پوری پاکستانی قوم کی یہ خواہش تھی کہ کوئی تو اُٹھے جو ملک کی تباہ حال معیشت کو سہارا دے کر ملک میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرسکے، سرمایہ دار ی اور جاگیرداری کے سیلاب کے سامنے بند باندھ کر صنعت و زراعت کو ایسے نظام کے دھارے میں لاسکے جس میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو سکے اور معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جا سکے۔
2011ء کے وسط تک عمران خان انھی خطوط پر سرگرم تھے اور ان کے و ہ ابتدائی ساتھی بھی تحریک انصاف کے اس سیاسی نظریے کی محبت کے سرور میں تھے۔ 2011ء کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا ایک نیا دور شروع ہوا جس کے پس منظر میں بعض لوگ جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا کی کاوشوں کا دخل سمجھتے ہیں۔ یہاں عمران خان نے محسوس کرلیا کہ وہ اقتدار کے لیے جس دروازے کی تلاش میں تھے اس کا راستہ ملک کے ان با اثر افراد کے پاس ہے جنھیں سیاسی اصطلاح میں الیکٹ ایبلز اور عرف عام میں نہ جانے کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ عمران خان ابتدا میں اقبال کی روحانی جمہوریت کی بات کرتے تھے ، اسلام کے منصفانہ نظام کی بات کرتے تھے، امریکہ اور اس کے حواریوں کو پاکستان کے مسائل کی جڑ قرار دیتے تھے، طبقاتی نظام ِ تعلیم ان کے نشانے پر ہوا کرتا تھا اور جو جاگیر داروں اور وڈیروں کو اپنے ساتھ ملانے پر تیار نہیں ہوتے تھے مگر بعد میں عمران
خان نے چُن چُن کر وہ ہیرے جمع کیے جن کی وفاداریاں اس استحصالی نظام کے ساتھ وابستہ ہیں۔
عمران خان یہ بنیادی نکتہ ہی بھُلا بیٹھے کہ جب تک پاکستان کا سیاسی نظام جاگیرداری، ذات برادری اور روپے پیسے کے مطابق چلتا رہے گا ۔ سرمایہ دار طبقے کا تسلط اسی طرح قائم رہے گا ۔ عوام ، عوام کے مسائل، ملک اور ملک کا وقار یہ تمام اقدار ان کے لیے بے معنی ہیں ۔ اگر یہاں فلاحی جمہوری معاشرہ قائم کرنا ہے تو سیاسی اختیارات کو جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، ذات، برادری اور فرقے سے آزاد کرانا ہوگا اور عام آدمی کو منتقل کرنا ہوگا ۔ پاکستان کے مسائل وہی لوگ حل کریں گے جن کے مسائل ہیں۔ جب تک ہماری معیشت اور سیاست سماجی خدمت کے جدید تصورات سے نہیں جڑیں گی اس وقت تک ملک و قوم کی حالت نہیں بدلے گی۔ اگرچہ یہ ایک طویل مدتی اور مشکلات سے بھری راہ ہے لیکن اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
عمران خان نے یکدم ایک ایسے سیاسی راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا جس سے تحریک انصاف بھی بتدریج ایک روایتی سیاسی جماعت کے روپ میں ڈھلنا شروع ہوگئی۔ اس نئی راہ پر جسے عمران خان ـ ’’ نیا پاکستان‘‘ کا نام دیتے ہیں انہوں نے انقلاب اور تبدیلی کے نام پر موقع پرستوں کی وہ فوج بنانا شروع کردی جنھیں خود خبر نہیں کہ کل کو انہوں نے کس کی شادی میں جاکر ڈھول بجانا ہے۔ رہی سہی کسر طاہر القادری کے ساتھ ’’رشتہ داری‘‘ نے پوری کردی ، اگر عمران خان ، طاہر القادری کے ساتھ اس وقت کھڑے ہوتے جب وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں گزشتہ انتخابات سے قبل انتخابی ا صلاحات کے لیے سرگرم عمل تھے تب یہ قریب از امکان تھا کہ انتخابی ا صلاحات کا معاملہ یقینا طے پا جا تا۔
بدقسمتی سے عمران خان نے ریٹائرڈ کرپٹ اور ناہل افسر شاہی، جاگیر داروں، پیروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے نما ئندے اکٹھے کر لیے۔ ایک وقت تھا جب عمران خان تبدیلی کی علامت تھے مگر وہی عمران خان اور تحریک انصاف عدم استحکام، پُر تشدد سیاست اور ہر قیمت پر اقتدار کا حصول کی علامت بنے۔ یہاں ایک سیاسی کارکن یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اگر موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اقتدار کا حصول ہی مقصد تھا تو یہ موقع اس وقت بھی تھا جب نواز شریف نے قومی اسمبلی کی تیس نشستوں کی پیش کش کی تھی۔ یہ مو قع اس وقت بھی موجود تھا کہ جب پرویز مشرف نے مسلم لیگ ق کی حکومت کا اتحادی بن جانے کا اشارہ کیا تھا۔ عمران نے یہ مواقع تو ضائع کیے ہی مگر عمران خان اور تحریک انصاف نے سب سے بڑا سیاسی موقع 2002ء کے انتخابات کے بعد گنوایا کہ جب بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی غیر موجودگی میں سیاسی قیادت کا بحران تھا، ایسے میں ملک کے کونے کونے سے مختلف وفود نے خان صاحب سے درخواست کی کہ وہ عوام میں نکلیں اور اس استحصالی نظام اور پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدو جہد کا آغاز کر دیں۔ مگر عمران خان نے اس وقت ایسا نہیں کیا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعدعمران خان کے ایجنڈے پر انتخابات کی مبینہ دھاندلی ہے رہی ۔مگر ملک میں رائج بدترین غربت، جاگیر داری، وڈیرہ شاہی اور مذہبی انتہا پرستی کے بڑھتے ہوئے منفی اثرات اور مظالم ان کی توجہ حاصل کرنے میں ناکا م ر ہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اس وقت گرامی قدر جناب محمود مرزا مرحوم نے بھی اسی جانب اشارہ کیا تھا کہ ’’ترقیاتی معاشیات کا مطالبہ رہا ہے کہ پسماندہ ممالک میںتیز ترقی کا عمل جاری کرنے کے لیے بڑے بڑے زمینداروں اور قبائلی سرداروں کا معاشی اور سماجی تسلط توڑنا ضروری ہے‘‘۔ لیکن تحریک انصاف کے دھرنوں اور جلسوں میں ہونے والی تمام تقاریر میںمذکورہ عناصر اور طبقوں کے خلاف لب کشائی نہیں کی گئی۔
2018ء کے انتخابات کے لیے عمران خان نے جس افراد کو پارٹی ٹکٹ دیے ہیں اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عمران خان منصفانہ معاشرے کے قیام اور تیز ترقی کا عمل جاری کرنے کے لیے بڑے بڑے زمینداروں اور قبائلی سرداروں کا معاشی اور سماجی تسلط توڑنے میں بُری طرح ناکام رہے ہیں۔