”کوئی چیز کبھی نشانے پر نہیں لگی“ میں نے دس بارہ فٹ دور پڑے ڈسٹ بن میں استعمال شدہ ٹشو پیپر کا گولہ بنا کر پھینکتے ہوئے کہا……!؟ (جھنجھلاہٹ میرے چہرے پر عیاں تھی……!
سب نے میری گیم میں دلچسپی لی…… اس وقت تو عمران خان لگ رہے ہو…… ثمینہ نے گھورتے ہوئے کہا…… جب دفتروں میں (اکثر اوقات) کوئی کام کاج نہ ہو تو اس طرح کے مذاق چلتے رہتے ہیں …… جہاں خواتین سٹاف ہو وہاں پہلے الٹ پلٹ لطیفوں سے پرہیز کیا جاتا تھا مگر اب عورت مرد…… سب انجوائے کرتے ہیں …… کل پرسوں سے کھل کر ٹرانسجینڈر پر بات ہو رہی ہے…… خواتین کی طرف سے زیادہ سوالات آرہے ہیں حالانکہ سب کو سب پتہ ہے سب مزے لے رہے ہیں یا ٹائم KILL کر رہے ہیں …… یہ KILL-KILL بھی خوب لفظ ہے…… میں نے کچھ دن پہلے دفتر والوں کو اردو میں KILL KILL کی مثال دے کر شہباز گل کا حوالہ دے کر سمجھایا تو PTI والے ناراض تھے مزید ہو گئے…… لیکن قائل ہوئے کہ بات سمجھ آگئی ہے…… یہ ”چول“ کی طرح عورت مرد سب کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ سید بدر سعید پوچھ رہا ہے بلبل مذکر ہے کہ مونث؟ غالب اور اقبال کا حوالہ بھی دے رہا ہے۔
اب بلبل کے تذکرے بدر ہی کرتا ہے ورنہ رویے بڑے تلخ ہیں۔ ویسے طلاق ”دینے کا رواج پوری دنیا میں اس وقت پورے عروج پر ہے“۔
ثمینہ صبح ساڑھے آٹھ بجے دفتر آئی…… ”سر میں شوہر سے طلاق لے رہی ہوں“۔
”میں نہیں دوں گا طلاق؟“ …… میرے منہ سے غیر ارادی طور پر نکلا…… اوہ…… سر …… آپ سے نہیں، اپنے شوہر غلام قادر دھڑکن سے…… لے رہی ہوں طلاق؟
پچھلے سال بھی گرمیوں میں تم نے طلاق اپلائی کی تھی؟ سر وہ تو صلح ہو گئی تھی…… اب کے پھر کوشش میں ہوں …… اللہ تمہاری مدد کرے…… میں نے دعا دی۔
میں نے قلم ہاتھ سے چھوڑا…… سر اوپر اٹھایا…… پانی پیا جو گلاس میں بچا ہوا تھا…… شاید…… کل کا پڑا تھا۔ دفتروں میں ایسا ہوتا ہے…… چلتا ہے۔
سوری ثمینہ…… یہ دھڑکن بھائی نے شاعری چھوڑ دی یا ابھی……!۔ وہ ان کی مشہور کتاب ”پارلیمنٹ سے……!
”مجھے اس سے نفرت ہے آپ سر اس کی
شاعری لے بیٹھے ہیں …… اور اب آپ اسے بھائی بھی نہیں کہیں گے؟“۔ غصے میں بولی جی…… کیوں؟۔ دھڑکن کہہ لیا کروں؟۔ ”پتہ نہیں“…… اس نے غصے میں کہا اور کمرے سے نکل گئی۔ اپنا بھاری بھر کم بیگ وہیں بھول کر۔ (دفتر میں ایسی کھچڑی پکتی رہی ہے موج میلا) ”ٹرن ٹرن“…… ”ٹرن ٹرن“…… فون کی بیل بجی…… مذکر مونث بول رہے ہیں۔ میرا دل چاہا…… بدتمیزی کروں؟ یہ کون ہے اور کیوں کسی مذکر مونث سے بات کرنا چاہتا ہے۔
”یار جلدی بتا…… کدھر ہے یہ مذکر مونث؟۔
”یار“…… میاں ہو ش کر…… میں نے غصے میں فون بند کر دیا۔ پھر بیل ہوئی…… تو تم پھر کون ہو…… جی مظفر محسنؔ
تو میں نے اسی سے بات کرنی ہے…… بتایا تھا جو 18500 والا پرائز بانڈ آپ کا نکلا تھا۔ جی …… جی …… بولیں …… میں مذکر مونث ہی بول رہا ہوں۔
مظفر محسنؔ…… اب کے اس نے تصحیح کر دی۔ فون بند۔ پھر میں کرتا رہا…… فون بزی ملتا رہا۔
جہاں رقم کا معاملہ ہو گا…… ہمارا رویہ بدل جاتا ہے…… گرمیوں میں تو مت پوچھیں!بات شہباز شریف کے عالمی دورے اور عمران خان کے جلسوں سے آگے نکل گئی؟؟
”ٹھاہ“…… دروازہ…… دیوار کے ساتھ زور سے لگا…… ”سر میں نوکری چھوڑ رہا ہوں …… میں اس …… ”بابو صابو“…… کے ساتھ گاڑی نہیں چلا سکتا۔
”کیوں وجہ بیان کی جائے“…… میں نے محبت سے پوچھا۔
یہ خود بھی دوپہر کو کھانا نہیں کھاتا…… اور مجھے بھی بھوکا مارتا ہے اس شدید گرمی میں۔ ”بابو“…… دور سے بولا…… ”سر غلط بیانی کر رہا ہے۔ میں اسے کھانے کے لیے سو روپیہ روز دیتا ہوں۔ ”کھاناتو نہیں کھلاتا“…… کھانا کھانا ہوتا ہے…… سو روپیہ سو روپیہ ہوتا ہے…… ڈرائیور غصے میں بولا۔
شہزاد چیمہ میرے پاس بیٹھا تھا…… دروازہ کھلا…… ”سر میں آسکتا ہوں“ …… ”نہیں جی“…… چیمہ صاحب نے جواب دیا۔
آپ صبح سے اس ”جاہل کمال دین“ کا انتظار کر رہے تھے…… وہ آیا ہے پسینے میں شرابور…… اس نے پوچھا…… ”سر میں آسکتا ہوں“ آپ نے کہہ دیا…… ”نہیں جی“۔
”اس نے کیوں پوچھا“…… چیمہ نے محبت سے کہا اور بھاگ کے اس کے پیچھے چلا گیا۔
محفل گرم تھی سب باتیں کر رہے تھے…… دوسری شادی کے فوائد کے حوالے سے اچھے اخلاق کی اچھے اعمال اور مذہبی اور وطن سے محبت کی اچانک وہ بولا ”لاؤ…… جی…… میں اگر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جگہ غداری کرتا اور اسامہ کا پتہ بتاتا تو دس ہزار ڈالر ہرگز نہ لیتا“۔ خواجہ غلام مجتبیٰ سیلانی نے سنجیدگی سے کہا۔
تو حضور…… آپ کتنے ڈالر وصول فرماتے اس غدارانہ عمل کے۔ میں نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
”ایک ارب ڈالر…… کم از کم“…… خواجہ غلام مجتبیٰ سیلانی نے برجستہ کہا اور سر ہلاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا……
”گویا …… ”آپ کو موقع ملتا تو آپ بھی؟“۔ میں نے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا …… مگر وہ جا چکا تھا۔ شاید غداری کا کوئی اور موقع تلا ش کرنے۔
میں دوپہر ساڑھے بارہ بجے دفتر سے چپکے سے بہانہ کر کے بچوں کو سکول لینے گیا۔ میں تو پسینے میں شرابور تھا ہی بابا نتھا بھی پسینے میں نہایا ہوا تھا۔ بابا نتھا ویگن پہ بچوں کو سکول لاتا اور لے جاتا ہے۔ ستر سالہ بابا نتھا اپنے ویگن سے بھی زیادہ طاقتور محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے آج کل کے جوان اسے دیکھ کر شرماتے ہیں۔ باؤ جلال جامیؔ نے ہارن بجایا۔ اس کے آگے میں موٹر سائیکل پر تھا۔ مجھے کچھ خاص برا نہ لگا…… کہ گرمی کی وجہ سے ہر کوئی فوراً نکل جانا چاہتا تھا…… کچھ لوگوں کے موڈ سے…… ہارن بجانے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ ان کو چونکہ گرمی برداشت نہیں ہو رہی شاید ہارن پہ ہارن بجاتے ہوئے بچوں کو یہیں چھوڑ کر نہ نکل جائیں۔ مجھ سے آگے رحیم داد سواتی اپنی مرسڈیز پر تھا۔ اس نے اتر کر جلال جامیؔ کو گریبان سے پکر لیا اور خوب گھسیٹا۔ جلال جامیؔ نے محلے داری کا لحاظ کرتے ہوئے ہاتھ نہ اٹھایا اور شدید بدتمیزی کی وجہ پوچھی۔
تم ہارن پر ہارن بجا کر مجھے شدید پریشان کر رہے تھے …… رحیم داد نے کہا اور ”وہ جو باقی پچاس لوگ مجھ سے بھی تیز اور خوفناک ہارن بجاتے ہی چلے جا رہے ہیں؟“۔
وہ تو تمہارے جتنے پڑھے لکھے اور سمجھدار نہیں۔ جلال جامیؔ نے گریبان چھوڑتے ہوئے جواب دیا اور جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اب کے جلال جامیؔ پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے ہارن پہ ہارن بجانے لگا۔ شاید غصے میں یا خیر سگالی کے طور پر!۔ آج کل کا عوامی سٹائل ہے سخت گرمی میں لوڈشیڈنگ کے باعث لوگ راستہ بھول چکے ہیں۔
خوشی پہ ہنستے نہیں …… اس کیفیت کو کیا کہتے ہیں۔ یہ شاعرہی بتا سکتا ہے۔
پتھر کی طرح ہم نے تیرا سوگ منایا
دامن نہ کیا چاک کبھی بال نہ کھولے