ممبئی : بھارت میں جاری کسان تحریک نے زور پکڑلیا ۔ ہزاروں کسانوں نے دہلی کے اردگرد تمام مرکزی شاہراہیں بند کردیں ۔ احتجاج میں سکھ خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے ۔
تفصیلات کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے پچھلے سال لاگو کیے گئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کو ایک سال ہونے کو آیا ہے ۔ کسانوں پر عائد ٹیکسز کے لئے خلاف جاری اس تحریک نے ایک بار پھر سے زور پکڑنا شروع کردیا ہے ۔
پیر کے روز ہزاروں سکھوں نے دہلی کے اردگرد کی تمام مرکزی شاہراہیں بند کردیں ۔ رنگ برنگی پگڑیاں پہنے سکھ کسان دہلی کے باہر ایک احتجاجی کیمپ میں لوگوں میں خوراک تقسیم کر رہے تھے۔ تحریک میں شامل سکھ پر اعتماد، پر جوش اور احتجاج کو لمبے عرصے تک جاری رکھنے کا ارادہ عزم رکھتے ہیں ۔ بڑی تعداد میں سکھ اپنے میٹرس بھی ساتھ لائے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی کے جنوب مغربی اور مشرقی علاقوں میں کسانوں نے ہائی ویز کو بند کر دیا ہے اور دہلی کا دوسری ریاستوں کے ساتھ رابطہ کاٹ دیا ہے۔امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے احتجاج کی تینوں جگہوں پر پولیس کی بڑی تعداد تعینات کردی گئی ہے ۔
کسانوں کی مشترکہ تنظیم یونائیٹڈ فارمرز فرنٹ نے کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دکانوں، دفاتر، فیکٹریوں اور دیگر اداروں کو10 گھنٹے بند رکھنے کی کال دی ہے۔ تاہم تمام ایمرجنسی سروسز کھلی رہیں گی۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین سے زراعت میں جدت آئے گی اور نجی سرمایہ کاری ہوگی۔ تاہم کسانوں کے مطابق ان قوانین سے انہیں اپنی فصل نجی کمپنیوں کو سستے داموں فروخت کرنا پڑے گی۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس پنجاب سے شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ دیگر ریاستوں ہریانہ، بہار اور کیرالہ تک پہنچ چکا ہے۔
انڈیا میں کانگریس سمیت اپوزیشن کی جماعتیں کسانوں کی حمایت کر رہی ہیں۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں، لیکن یہ مذاکرات ناکام رہے ہیں۔
کسانوں کی تحریک مجموعی طور پر پُرامن رہی ہے، لیکن جنوری میں انہوں نے دہلی کے لال قلعے پر چڑھائی کی تھی۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔