ریاست ماں کے جیسی اور گھر کی مانند ہوتی ہے،جیسے گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ہر فرد کوشش کرتا ہے اور ذرائع آمدن بڑھانے کیلئے محنت مشقت میں لگ جاتا ہے ایسے ہی کسی ملک کی قومی آمدن کو بڑھانے کیلئے ہر شہری کو حصہ لینا پڑتا ہے،جس ملک کے شہری اپنی اس قومی اخلاقی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں وہ ملک معاشی طور پر بحرانوں کا شکار رہتا ہے،ترقی یافتہ ممالک میں ہر شہری اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کے ٹیکس ادا کرتا ہے،ایک بات جو آج تک ہم نہیں سمجھ سکے یا سمجھنا نہیں چاہتے وہ یہ ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی میں غفلت یا کوتاہی قومی اور اخلاقی جرم ہی نہیں شرعی طور پر بھی جرم ہے،اگر کوئی شخص کسی دوسرے کیساتھ دھوکہ،فراڈ یا بد دیانتی کرتا ہے تو وہ ایک فرد کیساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اگر کوئی قومی معاملات میں بد دیانتی کرتا ہے تو وہ کروڑوں عوام سے بد دیانتی کا مرتکب ہو گا۔
قارئین۔میں ان دنوں کینیڈا میں ہوں جو ایک ترقی یافتہ،خوشحال اور اس سے بھی بڑھ کر ایک فلاحی ملک ہے، میں نے اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کا جائیزہ لیا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کی طرف سے ٹیکس کی باقاعدہ ادائیگی ہے جبکہ میں سمجھتا تھا کہ شاید اللہ نے ویسے ہی اس ملک کو بہت زیادہ دے رکھا ہے۔ہر سال یہاں کے ہر شخص کو ریٹرن فائل کرنا پڑتی ہے اور اس کا سسٹم بہت آسان ہے آپ آن لائن کینیڈا ریونیو ایجنسی کے ذریعے اپنی ٹیکس ریٹرن جمع کراتے ہیں اورآپ کو اس ملک میں اپنے تمام معاشی اور دیگر معاملات چلانے کے لئے کینیڈا ریونیو ایجنسی کا اپنا اکاؤنٹ ہی کام آتا ہے۔جو لوگ ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے وہ اس ملک کے اکثر فوائد بھی حاصل نہیں کر سکتے۔
دوسری طرف ہم مملکت خداداد پاکستان کے ٹیکس ریونیو پر غور کریں تو شرمناک حد تک کم شرح دکھائی دیتی ہے،جبکہ آئینی طور پر ہی نہیں اخلاقی طور پر بھی ٹیکس کی ادائیگی ہم پر فرض ہے،کوئی قوم فرائض کی ادائیگی کے بغیر حقوق کا تقاضا نہیں کر سکتی،مگر بد قسمتی سے ہم ہمیشہ حقوق کی طویل فہرست لئے سڑکوں پر ہوتے ہیں مگر فرائض کی ادائیگی کی طرف قطعی مائل نہیں ہوتے،حالانکہ فرائض کی ادائیگی کے بغیر حقوق مانگنا ناشکری ہی نہیں اخلاقی طور پر بھی گناہ ہے،ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس ادائیگی کی شرح 44سے54فیصد ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ شرح شرمناک حد تک کم ہے،سوال یہ ہے جس قوم کے شہری ٹیکس ادا نہیں کرتے وہ حکومت سے تعلیم صحت ترقیا تی منصوبوں کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں،سڑکوں،نکاسی و فراہمی آب کے منصوبوں کو کوئی حکومت کیسے مکمل کر سکتی ہے جبکہ قومی آمدن ہی نہ ہو یہی وجہ ہے کہ سابق و موجودہ حکومت کو غیر ملکی قرضوں کا سہارا لینا پڑا،جس کے نتیجے میں آج قوم کا ہر بچہ پیدا ہوتے ہی لاکھوں کا مقروض ہوتا ہے،جس ملک کی قومی آمدن کا بیشتر حصہ قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہو وہاں ترقیاتی منصوبوں تعلیم و صحت کی سہولتوں بارے سوچنا ہی حماقت ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس ادائیگی کی شرح قومی آمدن میں بہت زیادہ ہے جس کے نتیجے میں وہاں شہری ترقی کی رفتار بھی بہت تیز ہے،گزشتہ چند سال سے فرانس اور ڈنمارک ٹیکس وصولی میں نمبر ون کی پوزیشن پر ہیں تو ایک نظر وہاں حکومت کی جانب سے شہریوں کو دی جانے والی مراعات پر دوڑائیں تو لگتا ہے ہم پتھر کے دور میں جی رہے ہیں مگر ان کی آسائش اور سہولت کی وجہ ان کا باقاعدگی اور دیانتداری سے ٹیکس ادا کرنا ہے،برطانیہ میں ٹیکس ادائیگی33فیصد ہے اس لئے وہاں کے شہری حکومت سے حقوق مانگنے میں حق بجانب ہیں،بر اعظم افریقہ جیسے پسماندہ خطہ میں بھی یہ شرح 52فیصد کے قریب ہے،جنوب ایشیائی ممالک میں بھی یہ شرح ہم سے بہت بہتر ہے،نیپال جیسے ملک میں ٹیکس ریکوری کی شرح انیس اشا ریہ چار فیصد ہے،بھوٹان میں سولہ فیصد،بھارت اور سری لنکا میں بارہ فیصد ہے مگر ہمارے ہاں ٹیکس ادائیگی کی شرح صرف ساڑھے دس فیصد ہے،جبکہ افغانستان جیسے شورش زدہ ملک میں یہ شرح نو فیصد ہے،ہمیں اس حوالے سے سوچنا ہو گا کیا یہ حب الوطنی کے منافی نہیں کیا یہ درد مندی ہے؟ ہمیں صرف ملک کا ہی نہیں مفلوک الحال اور محروم الوسائل ہم وطنوں کی خبر گیری کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں پاکستانی شہری سب سے زیادہ صدقہ خیرات کرتے ہیں،مگر سمجھ سے بالا تر یہ بات ہے کہ اللہ کریم کی راہ میں انفاق کرنے میں سر فہرست قوم میں ٹیکس ادائیگی کا کلچر فروغ نہیں پا سکا،جبکہ غریب شہریوں کی داد رسی کی اصل ذمہ دار حکومت ہے مگر ہم حکومت کو دیتے ہی کیا ہیں؟ اکثر لوگوں کا گمان ہے کہ حکومتی ادارے سرکاری رقوم کی نگہبانی بجا طور پر انجام نہیں دے پاتے،اول تو یہ سوچنا ہمارا کام نہیں عدالت اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس پر چیک رکھے،ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے اس کے بعد دوسرے سے سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس نے اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی۔ بائیس کروڑ آبادی میں سے صرف تیس لاکھ شہری انکم کے گوشوارے جمع کراتے ہیں ان میں سے گیارہ لاکھ اپنی آمدن کے ذرائع چھپا کر ٹیکس ادائیگی نہیں کرتے،نو لاکھ وہ شہری ہیں جو پانچ ہزار یا اس سے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں،باقی دس لاکھ میں سے بیشتر تنخواہ دار ہیں جن کا ٹیکس تنخواہ کی ادائیگی کے وقت ہی کاٹ لیا جاتا ہے،اس آئینہ میں رضاکارانہ طور پر دیانتداری سے آمدن کے مطابق ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
دنیا بھر میں ریٹیل یعنی پرچون فروشی کو انڈسٹری کا درجہ دیا جا چکا ہے جس کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوا،بد قسمتی سے ہم نے اس پر تاحال توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں ریٹیل سیکٹر کا کاروباری حجم اٹھارہ کھرب روپے ہونے کے باوجود صرف تین کھرب کے لگ بھگ ذرائع ٹیکس نیٹ میں ہیں،اس صورتحال کی ایک وجہ حکومتی ادارے کی کمزوریاں بھی ہیں مگر دوسرے پر انگلی اٹھانے سے پہلے ہمیں اپنی طرف ایک نگاہ غلط انداز ہی سہی مگر ڈالنا ہو گی،ہم اپنا فرض ادا کر نے کے بعد کسی اور سے ادائیگی فرض بارے سوال کر سکتے ہیں اور ہمارا پہلا فرض ایک محب وطن شہری کے ناطے دیانتداری سے فرض سمجھ کر اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
موجودہ حکومت نے ٹیکس ادا کرنے اور وصول کرنے والوں میں اعتماد کی فضا بحال کی ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ مالی سال میں چار ہزار سات سو بتیس ارب کے ریکارڈ محصولات جمع ہوئے، امید ہے رواں سال ٹیکس ریونیو کا ہدف بھی حاصل کر لیا جائے گا اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو یہ ایک خوشگوار اور صحت مند روایت ہو گی۔