کوئی مانے نہ مانے، یکساں قومی نصاب کا معاملہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر تعلیم اب کلی طور پر صوبائی معاملہ ہے تو صوبوں کو اپنے بچوں کے لئے نصاب وضع کرنے اور کتابیں چھاپنے کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا؟ کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ نصاب وضع کرنے والے کون سے ماہرین ہیں؟ کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ نصاب اور درسی کتاب تو دو مختلف چیزیں ہیں۔ نصا ب تو ایک طرح کا عمومی خاکہ یا آؤٹ لائن ہوتی ہے جب کہ اس خاکے یا آؤٹ لائن کے مطابق کتابیں تصنیف کرنے کا حق تمام پبلشرز کو کیوں نہیں دیا جاتا؟ یہ حق درس گاہوں کو کیوں حاصل نہیں کہ وہ نصاب کی روشنی میں کسی بھی اچھی کتاب کا انتخاب کر لیں؟ کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اسلامیات جب ایک الگ مضمون کی حیثیت سے موجود ہے تو اسے ہر دوسرے مضمون میں بھی کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ غیر مسلم طلباء کا کیا بنے گا؟ کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر وفاقی حکومت نے کتابیں لکھوانے اور چھاپنے کا کام اپنے ذمے کیو ں لے لیا ہے؟ کبھی یہ مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ ذریعہ تعلیم اردو ہو گا یا انگریزی؟ کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ خود سر کار کی شائع کردہ کتابیں بھی غلطیوں سے پر ہیں۔
کبھی ایچی سن کالج جیسے ادارے کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم اپنے پہلے والے نصاب اور طریق تدریس کو جاری رکھیں گے۔ کبھی دینی مدارس کی طرف سے تحفظات کا اظہار ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ نئے نصاب کے نعرے نے کوئی مسئلہ حل تو نہیں کیا البتہ سوالات بے شمار اٹھا دئیے ہیں۔ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ متعلقہ حکام سے پوچھا جائے تو وہ بھی شافی جواب نہیں دے سکتے۔ یوں سمجھیں تعلیم جیسا نہایت سنجیدہ اور قومی اہمیت کا حامل مسئلہ سیاسی نعرہ بازی کی نذر ہو رہا ہے۔ اس میں حکومت ہی نہیں، اپوزیشن کی بھی کئی جماعتیں شامل ہیں۔ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ یہ نصاب تمام صوبوں میں بسنے والی اکائیوں کے تمام تعصبات دور کر دے گا۔ ان میں حب الوطنی کے جذبات پیدا ہو جائیں گے۔ وہ اپنی مقامی مجبوریوں، محرومیوں اور مسائل کو بھول کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں گے اور پھر ہم دیکھتے ہی دیکھتے، ایک بھیڑ کے بجائے ایک قوم بن جائیں گے۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہمارا معاشرہ، بالخصوص ہماری نئی نسل دین کی تعلیم بالخصوص قرآن و حدیث سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ جب قرآن ناظرہ لازم قرار دے دیا جائے گا تو ہم نیک اور پاک لوگ بن جائیں گے۔ ہمارا کردار بدل جائے گا اور پاکستان جرائم کا گہوارہ ہونے کے بجائے امن و سکون کا مرکز بن جائے گا۔
حال ہی میں مشہور ادارے گیلپ کا ایک سروے اخبارات کی زینت بنا ہے۔ سوال پوچھا گیا "حال ہی میں حکومت پنجاب نے قرآن پاک کو ایک مضمون کے طور پر پڑھانا پہلی سے بارھویں جماعت تک لازم قرار دیا ہے۔ کچھ لوگ اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ فیصلہ درست نہیں۔ اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟"
سچ پوچھیں، مجھے تو اس سوال پر ہی حیرت ہو رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی 96.47 فی صد ہے۔ ہندو آبادی 2.14 فی صد۔ عیسائی 1.27 ہیں جبکہ احمدی صرف.09 فی صد ہیں جنہوں نے خود کو ظاہر کیا ہو ا ہے۔ ہر مسلمان، خواہ اس کا مسلک کوئی بھی ہو، قرآن کریم کو اللہ کی آخری کتاب اور نبیؐ کو اللہ کا آخری نبی مانتا ہے۔ یہ ہمارے ایمان کے اجزاء ہیں۔ سو کسی مسلمان سے یہ پوچھنا کہ کیا قرآن پاک ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں، عجیب سوال ہے۔ توقع کے عین مطابق سروے میں 95 فیصد افراد نے پنجاب حکومت کے فیصلے کی حمایت کی اور کہا کہ جی ہاں قرآن کی تعلیم ضرور دی جانی چاہیے۔ چار فی صد نے جواب نہیں دیا اور ایک فی صد نے مختلف وجوہ کی بنا پر کہا کہ ایسا ضروری نہیں۔ چونکہ سروے میں ایک خاص سوال ہی پوچھا گیا تھا اور ہاں یا نہ میں جواب مانگا گیا تھا اس لئے یہ نہیں بتایا گیا کہ جن ایک فی صد افراد نے پہلی سے بارھویں جماعت تک قرآنی تعلیمات کو غیر ضروری قرار دیا، اسکی وجوہات کیا تھیں اور ان کا تعلق کس مذہب سے تھا۔
اس میں دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہمیں نہ صرف خود قرآنی تعلیمات سے آگاہ ہونا چاہیے بلکہ پور ے اہتمام کے ساتھ اپنی نئی نسل کو بھی اس نور سے منور کرنا چاہیے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم محض عقائد یا عبادات تک محدود نہیں، وہ پوری زندگی کا لائحہ عمل دیتا ہے۔ ذاتی اجتماعی زندگی کے ایک ایک شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ یہ اول سے آخر تک ایک منشور ہے۔ زندگی گزارنے کا طریق کار ہے۔ حکمت عملی ہے۔ قرآن سے آگاہی کے بغیر کوئی مسلمان، نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن وہ حقیقی معنوں میں اسلام کے تقاضوں کو نہیں سمجھ سکتا۔
مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں قرآن پڑھانا بھی ایک سیاسی یا عوامی نعرہ بنا دیا جاتا ہے۔ اسے ووٹ حاصل کرنے اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی سیڑھی سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہمارے ستر فی صد آبادی والے دیہات میں قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ گاؤں کی ایک سے زیادہ خواتین کسی طلب یا معاوضے کے بغیر یہ دینی فریضہ سر انجام دے رہی ہوتی ہیں۔ شہر کے مختلف محلوں میں بھی گھر گھر قرآن پاک پڑھانے والی خواتیں موجود ہیں۔ وہ بچیاں جو سکولوں میں نہیں جا سکتیں اور پڑھنا لکھنا نہیں چاہتیں، ان کی بہت بڑی اکثریت بھی قرآن پاک ناظرہ پڑھنا چاہتی ہیں۔ اسی طرح وہ لڑکے جو سکول جانے سے محروم رہتے ہیں، وہ بھی مسجد کے مولوی صاحب سے قرآن پڑھنے کی تعلیم ضرور لیتے ہیں۔ پورا قرآن پاک ختم نہ بھی کریں تو بھی چند سیپارے ضرور پڑھ لیتے ہیں۔جن کے سبب وہ باقی کلام پاک بھی پڑھ لیتے ہیں۔ اسی طرح لاکھوں مرد و زن ایسے ہیں جو قرآن پاک کے حفاظ ہیں۔ کتنی بڑی سعادت ہے کہ کوئی شخص اللہ کی آخری کتاب کو اپنے سینے میں محفوظ کر لے۔ ملک بھر میں پچیس ہزار کے قریب دینی مدارس بھی یہ مقدس فریضہ بڑے احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔
ضرورت کس بات کی ہے؟ اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ قرآن پاک کی مقدس تعلیمات ہمارے کردار و عمل کا حصہ کیوں نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن پاک کی تعلیمات کیا ہیں۔ناظرہ قرآن پاک پڑھنے والے کو یہ علم نہیں ہوتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں اور اس کے معنی کیا ہیں؟ عام طور پر گھر میں تلاوت کرتے ہوئے بھی ہماری نظریں قرآن کے معنی و مفہوم پر نہیں ہوتیں لیکن کیا ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن کریم کے مطابق اللہ پر ایمان رکھنے کے تقاضے کیا ہیں؟ اقبال نے کیوں کہا تھا کہ اللہ کے حضور سجدہ ہزار سجدوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ قرآن پاک ہمیں بدی کے کاموں سے روکتا اور نیک کاموں کا حکم دیتا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ جھوٹ، غیبت، بد دیانتی، خیانت، ملاوٹ، چوری، فریب کاری، دھوکا دہی، لوٹ مار، کم تولنا، ذخیرہ اندوزی، رشوت، منافع خوری، ہمارے دین میں بڑے گناہ اور جرائم ہیں؟ کیا ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے سب لوگ قرآن ناظرہ یا ترجمہ و تفسیر سے ناواقف ہیں؟ ایسا نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء، ماہرین تعلیم اور با اختیار لوگ مل بیٹھیں اور قرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا اہتمام کریں جو ہماری سیرت و کردار کو بدل ڈالے۔ کتنے دکھ کا مقام ہے کہ دنیا میں بے شمار قومیں اسلام اور قرآن سے ناواقف ہیں لیکن ان کے طور طریقے اور سماجی حالات ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ قرآنی تعلیمات کو یکساں نصاب کا حصہ ضرور بنائیں مگر ان تعلیمات کو نوجوانوں کے کردار کا حصہ بنانے کی بھی کوئی صورت نکالیں۔