کیسا انداز حکمرانی ہے کہ حکومت اور اس کے سارے چھوٹے بڑے اہم غیر اہم کارندے عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے 3 سال سے اپوزیشن کے ساتھ چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہر وزیر، مشیر، ترجمان کو اس کی صلاحیت اور افتاد طبع کے مطابق لڑائی کا مورچہ سنبھالنے کا حکم، بعض میں خدمت کا جذبہ لیکن اپنی فطرت کے خلاف فرائض انجام دینے پر مجبور، ہدایت کی گئی حالات کیسے بھی ہوں مورچہ نہ چھوڑیں مبادا اپوزیشن کا کوئی لشکر کسی ٹیلے سے حملہ آور ہو کر مٹی گارا لگی حکمرانی کی دیواریں ڈھادے۔ وزیر مشیر ”ہوئی صبح اور کان پر رکھ کر قلم نکلے“ والی صورتحال سے دوچار اپنے اپنے مورچوں پر الرٹ زندہ و بیدار کھڑے ہیں۔ سیاست کا اصول ہے کہ جنہیں عوامی مسائل حل کرنے ہوں وہ اول آخر دل و جان سے ان ہی مسائل پر فوکس کرتے ہیں، آئینوں پر گرد ڈال کر چہروں کے داغ دھبے نہیں چھپاتے، معمولی فیکٹری لگانی ہو تو اس کے لیے سب سے پہلے منصوبہ بندی اولین شرط ہوتی ہے۔ سمت کا تعین، زاد راہ اور سامان کے انتظامات اور پھر بہترین صلاحیتوں کا استعمال، ملک چلانا ہے عوامی مسائل حل کرنے ہیں مگر سارے بنیادی سوالات جوں کے توں، تین سال سے کبھی نہیں سوچا اب تک نہیں سمجھا کہ کیا صرف چور ڈاکو کہنے سے غریبوں کا پیٹ بھر جائے گا؟ ارد گرد پھیلے لا تعداد اور بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے؟ راستے کی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کرنے کا حوصلہ حکمرانوں کی سرشت میں شامل ہوتا ہے یہاں ساری مشکلات اور صعوبتیں عوام کی قسمت میں لکھ دی گئی ہیں۔ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی، اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ روزانہ کا معمول بن گیا۔ آٹا، دال،چینی، گھی سمیت ہر چیز عوام کی دسترس سے دور، زرعی اور صنعتی شعبے زبوں حالی کا شکار۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کا بھرکس نکال دیا۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی آٹا چینی گھی، دالیں سستے داموں نہ ملیں تو کہاں ملیں گی۔ مہنگائی نے غریبوں کی کمائی لوٹ لی۔ ساغر صدیقی نے اپنی کمائی لٹنے کا شکوہ کیا تھا۔ ”جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی، اس دور کے حاکم سے کوئی بھول ہوئی ہے“ یہاں کروڑوں غریبوں کی کمائی لٹ گئی۔ بھول کا فتویٰ کس پر لگایا جائے تین سال بعد بھی جانے والے قابل گردن زدنی، ہر اجلاس اور خطاب کی تان این آر او پر ٹوٹتی ہے۔ قانون کی بالا دستی پر زور، مگر قدغن صرف مخالفین پر،کمال ہے بالا دست ہیں قانون نہیں ہے۔ وہی سوال بھول کس سے ہوئی؟ بالا دستوں کی جانب انگلی اٹھاتے ڈر لگتا ہے۔ بھول عوام ہی سے ہوئی تھی کھٹی میٹھی باتوں میں آکر بھول کر بیٹھے، اب اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ملک گیر مظاہروں پر نظر نہیں جاتی۔ سوئی گیس کے مظاہرین نے سینہ کوبی کی کہ 16 ہزار ملازمین کو بر طرف کردیا۔ بیروزگاری کا اژدھا پھن پھیلائے
کھڑا ہے۔ لاہور میں ہسپتال کے ہزاروں ملازمین کے ہاتھوں میں جو بینر تھے ان پر تحریر تھا ”ساڈی تنخواہ نوں لگ گئی تیلی، ہائے تبدیلی ہائے تبدیلی“ پیٹرول 124 روپے لٹر، 150 روپے لٹر تک جانے کی افواہیں لوگ خوفزدہ نہیں ہوں گے؟ ایک سکوٹر والے نے شکوہ کیا کہ 124 روپے لٹر میں صرف آفس تک ہی جاسکتے ہیں واپسی کا پیٹرول کہاں سے ڈلوائیں۔ نہ جانے کیسے خبر ہوگئی وزیر خزانہ کو انہوں نے فوراً پریس کانفرنس بلائی کہا قیمتیں پوری دنیا میں بڑھی ہیں پاکستان کوئی انوکھا ملک نہیں۔ پیٹرول بھارت میں 250 روپے لٹر ہے۔ یعنی ہم سے دگنا کسی نے کہا ہم بھارت سے کتنے پیچھے ہیں۔ قیمتیں بڑھاتے 250 روپے تک پہنچیں گے تو بھارت کی برابری کر سکیں گے۔ بقول وزیر خزانہ ہم تو بنگلہ دیش سے بھی کم ہیں وہاں پیٹرول 180 روپے ملتا ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ابھی دو سال باقی ہیں بھارت اور بنگلہ دیش سے آگے نکل جائیں گے۔ کیااسی تبدیلی کا وعدہ تھا؟ چیخ و پکار بے سود، وفاقی وزیر با تدبیر نے اصلاح کردی ہے کہ”یا ایھا الناس آمدن میں 37 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ 11 سو تارکین وطن اکاؤنٹس کھلوا رہے ہیں“۔ اتنی خوشحالی پہلے کہاں آئی۔ آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے میرے احباب میں انسان نہ رہتے ہوں گے۔“ آپ کی خوشحالی ما شاء اللہ چہرے مہرے سے ٹپک رہی ہے۔ مہنگائی حکومت کا مسئلہ نہیں آئی ایم ایف کا مسئلہ ہے۔ خود رو پودا ہے وقت کے ساتھ بڑھتا جائے گا۔ ڈالر 170 روپے سے بڑھ گیا۔ 200 کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ ترقی ہو رہی ہے تو اضافہ بھی ہوگا تنقید کرنے والے عوام جھوٹے مگر بچے جھوٹ نہیں بولتے۔ غیر سیاسی ہوتے ہیں ایک اینکر نے شامت اعمال ایک بچے سے پوچھ لیا تین سال کیسے گزرے حکمران کیسے ہیں۔ بولا مجھے پتا نہیں بس اتنا جانتا ہوں کہ کل رات کھانے کو نہیں ملا۔ بھوکا ہی سونا پڑا، جوابدہ کون ہے؟ ایک سیانے سے پوچھا حکومت کا مسئلہ کیا ہے اس نے پوری کتاب کھول دی، اپوزیشن، اپوزیشن کی کرپشن، این آر او، چیف الیکشن کمشنر پر الزامات اعتراضات کہا نہیں مانتے۔ دو وزراء نے تو الزامات لگا دیے۔ اعظم سواتی نے پیسوں کا الزام لگایا۔ الیکشن کمیشن نے نوٹس دیے سات دن میں جواب طلب کیا۔ ایک ماہ کی مہلت مانگ لی۔ لوگوں نے کہا اس عرصہ میں چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کردیں گے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری، اپنے لائے ہوئے بندے کے خلاف محاذ آرائی؟ ”ہوتا آیا ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں“ بڑا مسئلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات پر اصرار، الیکشن کمیشن نے مشین مسترد کردی۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آرڈی نینس کے ذریعے نفاذ پھر قانون سازی، سب کو تابع فرمان بنا لیں گے۔ الیکشن عالی جاہ کے حکم کے مطابق ہوں گے۔ ایک اور اہم مسئلہ نیب چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع با خبر لوگ کہتے ہیں فیصلہ ہوچکا چیئرمین انتہائی مفید بلکہ فائدہ مند شخصیت ان سے بہتر اور کون ہوگا۔ اپوزیشن خواہ مخواہ ردعمل کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ ایک نوٹس کی مار، روز عدالتوں کے چکر لگے تو دماغ ٹھکانے پر آجائے گا۔ رد عمل کیا ہوگا۔ دو چار خبریں عدالت میں چیلنج اس سے آگے کچھ نہیں حد ادب باڑ نہیں پھلانگ سکتے۔ نقصان کا ڈر ہے چالان کا خوف ہے۔ حکومت کے پیش نظر اس جیسے کئی مسائل، تین سال سے ان ہی مسائل میں الجھی ہوئی ہے اپوزیشن سے چومکھی لڑائی میں مصروف اصل مسائل سے صرف نظر،کوئی منصوبہ بندی نہ سمت کا تعین 100 دن میں ملکی خوشحالی کی فیکٹری لگانی تھی 11 سو دن بیت گئے منصوبہ بندی نہ ہوسکی اپنے شیخ صاحب بھی مایوسی کا شکار ہیں۔ تین سال پہلے لوگوں کو بجلی گیس کے بل جلانے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ لوگوں نے”تلقین شاہ“کی بات مان لی ہے۔ بجلی، گیس کے بل جلائے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں ایک ہی مسئلہ ایک ہی چیلنج مہنگائی۔ شیخ صاحب کا تجزیہ سولہ آنے درست لیکن حکومت کو چومکھی لڑائی سے فرصت ملے تو اس چیلنج سے نمٹنے کے بارے میں سوچے ورنہ دو سال بعد راج کرے گی خلق خدا، ہم دیکھیں گے۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔ جو لوح ازل میں لکھا ہے، ہم دیکھیں گے۔