میرا نہیں خیال کہ پاکستان کو اب امریکہ کی طرف دیکھنا چاہیے۔ ہم نے سب جتن کر لیے لیکن پاکستان امریکیوں کی گڈ بک سے نکل چکا ہے۔ اس خطے میں امریکہ نے بھارت کو اپنے سٹریٹیجک پارٹنر کا درجہ دے رکھا ہے اور بھارت اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ ایک بڑی معیشت ہے۔ بھارت اور امریکہ کے تعلقات حالیہ برسوں میں تیزی سے بڑھے ہیں اور ہم نے اس دوران چین سے اپنی قربت کو بڑھایا ہے۔ چین نے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا تو ہم نے اسے گیم چینجر قرار دیا اور اب خود کی اس منصوبے کی رفتار کو سست کر دیا حالانکہ اس کی رفتار کو تیز کرنا ضروری تھا تاکہ اس کے ثمرات آنا شروع ہوتے۔ افغانستان کے حالات جس تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اس میں پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا اور امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کی لیکن شاید ہی کوئی اس کا اعتراف کرنے کے لیے تیار ہو۔ امریکی اور اس کے اتحادی افغانستان میں اپنی شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں مگر ایسا نہیں ہو گا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کے خطاب کا اگر جائزہ لیں تو میری نظر میں ایک ہی پوائنٹ ہے جس پر گفتگو کی جا سکتی ہے وہ ہے افغانستان۔ انہوں نے کچھ چھپانے کے بجائے سب پر واضح کر دیا کہ اگر افغانستان میں عبوری حکومت کو تسلیم نہ کیا گیا اور اس کے ساتھ انگیجمنٹ کی پالیسی کو نہ اپنایا گیا تو افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کا گڑھ بن سکتا ہے۔
عمران خان نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کو تسلیم نہیں کر رہے اور دوسری طرف وہ افغانستان میں جاسوسی کرنے والے اور ترجمہ کرنے والوں کی مدد کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اس جنگ میں بے تحاشا نقصان اٹھایا لیکن بدلے میں کیا ملا ہے؟ پاکستان نے امریکہ کی اس جنگ میں مدد دینے کے لیے ہر قسم کا تعاون کیا۔ القاعدہ کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لاجسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کی اور اس کے بدلے میں دہشت گردی کا سامنا کیا۔ اس جنگ میں پاکستان کے ہزاروں افراد شہید ہوئے۔ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور نتیجہ صفر۔ ان حکمرانوں کی وجہ سے ہماری حالت دھوبی کے اس کتے کی ہے جو گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔
کسی نہ کسی جگہ ہم غلطی ضرور کر رہے ہیں اور جب تک اس وجہ کو تلاش نہیں کیا جاتا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ لولی لنگڑی جمہوریت ہے جسے ہر طاقتور موم کی ناک کی طرح اپنی طرف موڑ لیتا ہے۔ اس ملک میں جب تک ایک طاقتور جمہوری نظام رائج نہیں ہو گا ہم کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ریاست کو چند طاقتور جتھوں نے یرغمال بنا رکھا ہے اور وہ اپنی مرضی اور منشا کے فیصلے کرانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ریاست کی رٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد میں امارات اسلامی کا پرچم لہرا دیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھمکی دی گئی کہ ہمیں ہاتھ لگایا تو طالبان آئیں گے اور تمہارا حشر نشر کر دیں گے۔ ہم تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان میں ڈھونڈ رہے ہیں اور اس کے بہی خواہ پاکستان کے ہر شہر میں موجود ہیں اور ہم ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کر پا رہے۔ دشمن ہماری بغل میں موجود ہے اور ہم پورے شہر میں ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا ہے، ہم نے طالبان اور امریکہ کو میز پر لانے کے لیے مدد ضرور فراہم کی۔ امریکہ جن طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا تھا ان لوگوں کو جیلوں سے نکال کر باہر بھیجا حالانکہ ان کے خلاف مقدمات موجود تھے۔ اب جن شرائط کے تحت افغانستان طالبان کے حوالے کیا گیا ہے تو وہ شرائط پوری کرنا دونوں فریقین کا کام ہے۔ ہم اس بات کے مجاز ہرگز نہیں ہیں کہ طالبان سے یہ کہیں کہ وہ کس کس کو اپنی حکومت میں شامل کریں۔ طالبان کو ہم سے جس قدر مدد کی ضرورت ہے وہ ملک چلانے کے لیے انہیں فراہم کی جائے۔
پاکستان اقوام متحدہ میں بین الاقوامی برادری کو یقین دلا رہا ہے کہ طالبان نے جب سے کابل کا اقتدار سنبھالا ہے اس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی اور دوسری طرف یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ افغانستان میں مردوں کی لاشیں چوک میں لٹکا دی گئیں۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہرات صوبے کے ڈپٹی گورنر مولوی شیر احمد مہاجر نے کہا کہ چاروں مردوں کی لاشیں ایک ہی دن مختلف علاقوں میں کرین سے لٹکا کر آویزاں کی گئیں تاکہ یہ سبق سکھایا جائے کہ اغوا کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اسلام پسند حلقے اسے فوری انصاف قرار دیں گے مگر بین الاقوامی برادری عدالتوں میں مقدمات کے بغیر دی جانے والی سزاؤں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔
ان فوری سزاؤں کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں میں طالبان کا خوف پیدا کیا جائے، لوگوں کے ہجوم نے اس منظر کو دیکھا اور مسلح طالبان جنگجو گاڑی کے گرد جمع ہو گئے۔ایک اور ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ہرات کے ایک بڑے چوراہے پر ایک شخص کرین سے لٹکا ہوا ہے اور اس کے سینے پر یہ موجود تختی پر پڑھا جا سکتا ہے کہ اغوا کرنے والوں کو اس طرح سزا دی جائے گی۔
پچھلے مہینے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد شہر کے کئی چوکوں پر سزا دی گئی لیکن یہ ان میں سب سے سنگین نوعیت کی تھی اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ طالبان 1996 سے 2001 تک اپنے سابقہ دور حکمرانی کی طرح اس مرتبہ بھی سخت اقدامات اپنائیں گے۔
طالبان کا اپنا نظام انصاف ہے اور وہ اسے افغانستان میں لاگو کرنے میں آزاد ہیں۔ ہمیں ان کا وکیل یا ترجمان بننے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات کو درست کرنے کی طرف توجہ دینی ہے۔ کوئی بھی ہم سے خوش نہیں ہے اور یہ سارے ناراض ملک مل کر پاکستان کو سبق سکھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔یہ کھوج لگانا ازبس ضروری ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو پردے کے پیچھے سے ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
دنیا ہماری کڑی نگرانی کر رہی ہے ان حالات میں ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ افغانستان میں کچھ بھی ہوتا ہے تو اس کا ملبہ ہم پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان حالات میں عمران خان کی تقریر بروقت ہے کہ وہ عالمی برادری کو احساس دلا رہے ہیں کہ وہ طالبان کو تنہائی کا شکار نہ ہونے دے۔