آئرش ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شاہ نے کہا تھا ”جھوٹے علم سے بچو، یہ جہالت سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے“۔ جب کسی پسماندہ ملک کا باشندہ کسی ترقی یافتہ ملک جاتاہے تو وہاں جا کر اس کا کیا حال ہوتا ہے؟ اسے وہاں کی سڑکوں پر غربت کیسے نظرآتی، کم کپڑوں میں سڑکوں پر پھرتی عورتیں غریب لگتی ہیں کہ وہ اپنے لئے عبایہ نہیں سلوا پا رہیں۔وہ اپنے ملک کے لنگر خانوں کو یاد کرتا ہے اور اس کے دل میں رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ کاش اس کی طرح یہ ساری دنیا جان سکے کہ اس کے ملک کا حکمران کتنا عظیم اور درد دل رکھنے والا ہے، کیسے وہ ترقی یافتہ ملک میں پھرتی ہوئی غریب اور مجبور عورتوں کو دیکھ کر چیخ چیخ کہنا چاہتا ہے کہ کبھی ہمارے ملک میں خوشبو لگا کر آؤ تو تمہیں معلوم ہو کہ عورت کا مقام کیا ہوتا ہے، غریبوں کی فلاح کیا ہوتی ہے، بھوکوں کا درد کیا ہوتا ہے اور فلاحی ریاست آخر ہوتی کیا ہے؟۔آپ کے دل میں جو نام آرہا ہے میں قطعاً اس”رتن“ کی بات نہیں کر رہا بلکہ میں بات کر رہا ہوں ”بورٹ“ کی۔
لوگوں کو مین ہٹن کی سڑکوں پر معلوم نہیں کون نظر آرہا تھا مگر مجھے لگ رہا تھا کہ یہ تو ”بورٹ“ ہے، وہی بورٹ جو ایک پسماندہ ملک سے امریکہ پہنچا تھا، وہی بورٹ جسے جدید دنیا کے بارے میں کچھ علم نہیں، جو اپنے ہی کنویں میں قید تھا، جسے شخصی آزادی، انسانی ترقی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، جو ترقی یافتہ ممالک کے کلچر کو سمجھنے سے قاصر تھا اور انہیں بے حیائی گردانتا تھا،فلموں کے شائقین کیلئے بورٹ کا کردار کچھ نیا نہیں بلکہ جو لوگ کامیڈی فلموں کو پسند کرتے ہیں ان کی تو شائد پسندیدہ فلموں میں سے ایک ”بورٹ“ ہو۔ یہ فلم 2006 میں ہالی ووڈ میں بنی جس میں تضحیک کی حد تک قازقستان کا مذاق اڑایا گیا، اس فلم کا پورا نام ”بورٹ، قازقستان کو شاندارقوم بنانے کے لیے امریکہ سے ثقافتی تعلقات سیکھنا“ تھا۔
یہ ایک تصوراتی کردار پر مبنی فلم تھی جس کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے، ایک پسماندہ ترین ملک کا رہنے والا جو ایک ثقافتی دورے پر امریکہ جاتا ہے اور پھر وہاں اس پر حیرت کے در وا ہو جاتے ہیں۔بورٹ اپنا تعارف خود امریکہ جاتے ہوئے قازقستان کی عوام کیلئے ایک ویڈیو میں کراتا ہے ”میرا نام بورٹ ہے، میں قازقستان کا ایک صحافی ہوں، میری حکومت مجھے امریکہ بھیج
رہی ہے تاکہ میں ایک مووی فلم بنا سکوں، براہ مہربانی میری فلم دیکھنے ضرور آنا، ورنہ مجھے پھانسی دیدی جائے گی“۔
بورٹ امریکہ پہنچا تو اس کے فخر میں اضافہ ہو گیا، اس نے دیکھا کہ سڑکوں پر غریب عورتیں نشے میں ٹن فٹ پاتھ اور بنچوں پر سو رہی ہے، یہ امریکہ کی بے سہارا بیٹیاں تھیں جن کے کپڑے بھی چھوٹے تھے اور غربت کی وجہ سے وہ تن بھی نہیں ڈھانپ سکتی تھیں، بورٹ احساس فخر سے پھول گیا، اسے لگا کہ قازقستان ہی دنیا کی سپر پاور ہے اس نے ایک بزرگ خاتون سے کہا ”ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا سیب ہے جس کا وزن تین کلو ہے، کیا تم قازقستان کو سپر پاور مانتی ہو“؟ خاتون نے جواب دیا ”یہ ضروری نہیں بلکہ ضروری یہ ہے کہ آپ عوام کو کتنی آزادی فراہم کرتے ہیں“۔ بورٹ نے اگلا سوال کیا”ہمارے ملک میں دنیا کا واحدایسا شخص ہے جس کے ہاتھوں کی 8 انگلیاں ہیں کیا تمہارے ملک میں ہے کوئی ایسا اور تم پھر بھی امریکہ کو سپر پاور کہتی ہو؟خاتون نے کہا ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیا تمہارے ملک میں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہیں، کیا وہ اپنی مرضی سے حکمران چن سکتے ہیں؟۔ بورٹ نے اگلی دلیل دی ”ہمارے ملک میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی بھیڑ ہے، جبکہ امریکہ اس معاملے میں پانچویں نمبر پر ہے“؟ خاتون نے جواب دیا ”مجھے کوئی پروا نہیں، تم شاید میری بات ہی نہیں سن رہے“۔
بورٹ ایری زونا کی ری پبلکن کمیٹی کے ساتھ کھانا کھانے پہنچا تو اسے تقریر کا موقع دیا گیا جہاں اس نے کہا ”سب سے پہلے میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، آج تشنیک قتل عام (قازقستان میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا) کو 14 سال ہو گئے ہیں اس لئے میں سب سے کہوں گا کہ آپ دس منٹ کیلئے خاموش رہیں اور کھڑے ہو جائیں۔ سب امریکی کھڑے ہو گئے مگر پانچ منٹ بعد ایک امریکی کو کھانسی آگئی، تو بورٹ نے ناگواری سے کہا ”ہم دوبارہ آغاز کریں گے“ اس بار سب امریکی بغیر کوئی آواز کئے دس منٹ کھڑے رہے، بورٹ نے وقت پورا ہونے پر سب کا شکریہ ادا کیا مگر جب اس نے اپنی گھڑی دیکھی تو اسے معلوم ہوا کہ اس نے دس سیکنڈ پہلے سب کو بٹھا دیا تو اس نے حاضرین سے درخواست کی ”10 مزید سیکنڈ“۔ حاضرین محفل دوبارہ طوعاً و کرہاً دوبارہ دس سیکنڈ کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔اب بورٹ اپنی تقریر شروع کرتا ہے ”جب میں اس ملک آیا تو میں نے دیکھا کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں، جب میں قازقستان کہتا تو وہ سمجھتے کہ میں افغانستان کہہ رہا ہوں، یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو ان کے چہرے سے نہ جانچا جائے، بورٹ نے سامنے بیٹھے ایک امریکی کی طرف اشارہ کیا اور مثال دیتے ہوئے کہا”جب میں نے اس شخص کو دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ یہ ایویکا لشکو ہے جو قازقستان کا سب سے مشہور جنسی مجرم ہے، مگر ایسا نہیں ہے“۔اس کے ساتھ ساتھ میرے لئے امریکہ کی عورتوں کو دیکھنا بھی بہت حیران کن رہا، میرے ملک میں جو بھی خاتون کسی سیاستدان کے ساتھ اس کے کمرے میں جاتی ہے اسے برا سمجھا جاتا ہے، میرے ملک میں کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کسی عورت کا آنا ایسے ہی ہے جیسے کسی بندر کو جہاز چلانے دیدیا جائے، جب ہم قازقستان میں تقریر کرتے ہیں تو لطیفے سے سب کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں، ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کہا، تمہاری بیوی اتنی دکھی کیوں ہے، اس آدمی نے جواب دیا، کیونکہ میری بیوی کو سیب پسند ہیں“۔
بورٹ ایک پروپیگنڈہ فلم تھی،، یہ درحقیقت ایک تصوراتی کردار تھا، مگر آپ اس کردار کی معاشرے پر اثر پذیری کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ امریکہ میں قازقستان کے سفارتخانے کے پریس سیکرٹری کو ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا کہ اس فلم کے ذریعے پیدا ہونے والی کچھ غلط فہمیوں کی وہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔”قازقستان میں خواتین کو پنجروں میں بند نہیں کیا جاتا، قومی کھیل کتوں کو گولی مار کر پارٹی کرنا نہیں ہے، آپ غیر ملکیوں کو پکڑنے کو روزگار نہیں بنا سکتے، الکحل بنانے کیلئے پیشاب کا استعمال نہیں کیا جاتا اور ایسی کوئی ثقافت نہیں کہ آپ نے دوسرے مرد کے ”خروم“ پکڑ کر دبانے ہیں“۔
اسی طرح میرے خیال میں حکومت پاکستان کی طرف سے بھی وضاحت جاری کی جانی چاہئے کہ واشنگٹن کی سڑکوں پر پھرتے ہوئے دیسی بورٹ کے خیالات سے پاکستان اور پاکستانی عوام کا کوئی تعلق نہیں اور یہ سب اس کے اپنے خیالات و جذبات ہیں کیونکہ بقول میرے رفیق ”ہر انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے“۔