نیویارک: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری سے افغانستان کے منجمد اکاؤنٹس کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں اقتصادی بحران سے تباہی ہو سکتی ہے۔ افغان مہاجرین کی آمدسے پاکستان، ایران اور تاجکستان بھی شدید متاثر ہوں گے۔
وزیر خارجہ نے یہ بات الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں سپائلر کا کردار ادا کر رہا ہے، اسی کی وجہ سے امن کاوشوں میں رکاوٹیں آئیں، امید ہے بھارت اب ماضی کی روش سے ختم کر دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی پڑوسی ممالک میں آمد سے خطہ شدید متاثر ہوگا، پاکستان کے اس حوالے سے تحفظات ہیں۔ افغانستان میں بحران سے دہشتگرد عناصر کو پنپنے کا موقع ملے گا۔ اس سے پورے خطے کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان عوام اپنی پالیسیوں کی تشکیل اور مسائل حل کرنے میں آزاد ہیں، ہم صرف افغانستان میں امن واستحکام چاہتے ہیں، افغان عوام کا بھی یہی مقصد ہے کہ وہاں امن اور استحکام آئے۔
اس سے قبل نیویارک میں پاکستانی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ عالمی برادری اب پاکستان کے نکتہ نظر کو بہتر طریقے سے سمجھ رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا جنرل اسمبلی سے خطاب مثبت اور تعمیری تھا جس میں انہوں نے خصوصاً ان پس پردہ حقائق معلوم کرنے کی طرف توجہ مبذول کرائی جو افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کا باعث بنے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں جموں و کشمیر کے بارے میں بھارتی پراپیگنڈے کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ جموں و کشمیر کے بارے میں اسلامی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ کے اجلاس سے انتہائی مطمئن ہیں جس میں ترکی ،سعودی عرب اور آذر بائیجان کے انکے ہم منصبوں نے تنازعہ کشمیر کے بارے میں اپنے موقف کا اعادہ کیا۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں کئی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملاقات اچھے ماحول میں ہوئی ہے جس کامقصد باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا۔شاہ محمودقریشی نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان سے امریکہ اور دیگر ملکوں کے باشندوں کے انخلاء کیلئے پاکستان کے تعاون اور خطے میں امن کیلئے کوششیں جاری رکھنے کو سراہا۔
خیال رہے کہ وزیر خارجہ تین روزہ سرکاری دورے پر آج لندن پہنچے ہیں، وہ وہاں مقیم پاکستانی برادری اور ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتوں سمیت اپنے برطانوی ہم منصب سے تفصیلی ملاقات کریںگے۔ واضح رہے کہ اس ماہ کے آغاز پر سابق برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں دو طرفہ تعلقات اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔