نیویارک: اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا کے 20 مختلف ممالک میں شدید بھوک کے بحران کا خطرہ ہے۔ مستقبل میں لاکھوں انسانوں پر سیاسی تنازعات، کورونا کی وبا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر عالمی برادری نے جلد مناسب اقدامات نہ کئے تو دنیا کے 20 سے زائد مختلف ممالک میں شدید بھوک کے بحران میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ عالمی ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے اس حوالہ سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
ڈبلیو ایف پی اور ایف اے او نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر 3 کروڑ 40 لاکھ افراد پہلے ہی انتہائی غذائی قلت کا شکار ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ بھوک کی وجہ سے موت کے قریب ہیں۔ ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے اس حوالہ سے کہا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے تباہی پھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
تنازعات کی وجہ سے قحط، ماحولیاتی تبدیلی اور کووڈ 19 کی عالمی وبا کی وجہ سے بھوک لاکھوں خاندانوں کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھوک کے لحاظ سے سب سے زیادہ برا حال جنگ زدہ ممالک یمن، جنوبی سوڈان اور شمالی نائیجیریا میں ہے۔
عالمی سطح پر سب سے زیادہ بحرانی کیفیت افریقی ممالک میں ہے تاہم اب افغانستان، شام، لبنان، اور ہیٹی جیسے ممالک میں بھی شدید بھوک میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ”ہنگر ہاٹ اسپاٹ” کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے انتہائی خطرے سے دو چار علاقوں میں اہداف بنا کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ انتہائی کمزور برادریوں کو بچایا جا سکے۔
ان ممالک میں آبادی کے بعض حصوں کو پہلے ہی شدید معاشی مسائل، کم غذا اور انتہائی شدید کم غذائیت کا سامنا ہے۔ ایسی نازک صورت حال میں مزید افرادکیلئے بدحالی یا فاقہ کشی کے خطرات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ڈیوڈ بیسلی نے کہا ہے کہ دنیا بھر کے 20 سے زیادہ مختلف ممالک میں لاکھوں افراد کو فاقوں اور موت سے بچانے کے لیے انسانی بنیادوں پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔