اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دوحہ مذاکرات سے افغان جنگ خاتمے کے قریب ہے۔ یہ افغانستان اور خطے کیلئے امید کا سنہری موقع ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے مضمون میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کئی دہائیوں سے پاکستان 40 لاکھ افغان مہاجرین کی خدمت کر رہا ہے۔ افغان جنگ سے اسلحہ اور منشیات پاکستان میں آئی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب تک افغانوں کو امن اور سکون نصیب نہیں ہوگا، پاکستان بھی حقیقی امن حاصل نہیں کر سکتا۔ افغانستان میں امن واستحکام طاقت کے بل بوتے پر قائم نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن واستحکام طاقت کے ذریعے باہر سے تھوپا نہیں جا سکتا۔ صرف افغانستان کی قیادت اور افغانوں کی شمولیت سے ہی پائیدار امن ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں جغرافیہ، ثقافت اور رشتوں سے جڑے ہیں۔ افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہے۔ دوحہ مذاکرات کے نتیجےمیں افغان جنگ خاتمے کے قریب ہے۔ اس وقت افغانستان اور خطے کے لیے امید کا سنہری موقع ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس سے ویڈٰیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ شہریوں کو حقوق دینے کیلئےامن کی ضرورت ہے اور ہم خطے میں امن اور کثیر الجہتی اشتراک سے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ جب سے ہماری حکومت آئی ہم نے عوام کی بہتری کیلیے کوششیں کیں۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے پاکستان میں ہم نےسخت لاک ڈاؤن نہیں کیا اور پاکستان نےاسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی کیونکہ کورونانےدنیا بھر میں غریب اور نادار افراد کو سخت متاثر کیا اور دنیا میں جب تک ہر شخص محفوظ نہیں تو کوئی شخص محفوظ نہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 8 ارب ڈالر سے صحت کی سہولیات اور غریب افراد کی مدد کی گئی اور حکومت کی تمام پالیسیوں کامقصد شہریوں کےمعیار زندگی میں اضافہ ہے کیونکہ ہم نے نبی پاک ﷺ کی ریاست مدینہ کے تصور پر نئے پاکستان کا ماڈل تشکیل دیا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے ہم نے3سال میں 10ملین درخت لگانےکا منصوبہ بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وبا انسانیت کو متحد کرنے کے لیے ایک موقع تھا لیکن بدقسمتی سے قوم پرستی، بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مذہبی سطح پر نفرت میں اضافہ ہوا اور اسلاموفوبیا بھی سر چڑھ کر بولنے لگا۔ہمارے مقدس مزارات کو نشانہ بنایا گیا ہمارے پیغبمر ﷺ کی گستاخی کی گئی، قرآن پاک کو جلایاگیا اور یہ سب کچھ اظہار آزادی کے نام پر کیا گیا جبکہ چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کی بات کی جو حالیہ مثال ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہہ دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلاموفوبیا ہے اس کی وجہ آر ایس ایس کے نظریات ہیں جو بدقسمتی سے بھارت میں حکمران ہے۔بھارت دنیا میں اسلامو فوبیا کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ بھارت میں آر ایس ایس کا نظریہ غالب ہے جبکہ مودی کی حکومت کی جانب سے گاندھی اور نہرو کا نظریہ آر ایس ایس نظریے میں بدل دیا گیا جبکہ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور گجرات میں قتل عام نریندر مودی کی سرپرستی میں ہوا۔ آر ایس ایس نے 1992 میں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا جبکہ انتہا پسند نظریے کی تشکیل 1920 کی دہائی میں کی گئی اور اس کے بانی اراکین نازی نظریات سے متاثر تھے، نازی یہودیوں کو نشانہ بناتے تھے اور آر ایس ایس مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا بھارت کو ہندو ریاست بنانے کیلئے مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور آسام میں 20 لاکھ مسلمان شہریت سے محروم کر دیئے گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت اپنے غیر قانونی اقدام سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ فاشسٹ بھارتی حکومت کی جانب سے اشتعال انگیزی کی گئی تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کی تو قوم بھرپور جواب دیگی۔ پاکستان ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر بھارتی جارحیت کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ہماری خارجہ پالیسی کامقصد ہمسایوں کیساتھ اچھے تعلقات،مسائل کابات چیت سےحل ہے اور ہم اس موقع پر امن ، استحکام اور پر امن ہمسائیگی کے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں جبکہ اسی صورت ہم عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو بھی پورا کر سکتے ہیں ، لیکن نئی مخالف طاقتوں کے درمیان اسلحے کی نئی دوڑ چل رہی ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں اڑائیں جا رہی ہیں جبکہ فوجی قبضے اور غیر قانونی توسیعی پسندانہ اقدامات سے حق خودارادیت کو دبایا جا رہا ہے۔
امریکی اخبار میں لکھے گئے اپنے مضمون میں وزیراعظم نے کہا کہ افغنستان میں بد امنی کی وجہ سے افغانوں کے علاوہ سب سے بھاری قیمت پاکستان نے چکائی ہے۔ اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے افغانستان کے ساتھ جڑا ہے اور جب وہاں امن نہیں ہوتا پاکستان میں بھی امن نہیں آئے گا۔ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ افغانستان میں باہر سے طاقت کے زور پر امن قائم نہیں کیا جا سکتا اور کا حل بین الافغان مذاکرات سے ہی نکل سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز بنے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں 80 ہزار سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں، اور اب بھی دہشت گرد افغانستان سے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔ امن مذاکرات مجبوری میں نہیں ہونے چاہیں اور تمام فریقین سے اپیل ہے کہ تشدد میں کمی کریں۔ جس طرح افغان حکومت نے طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا ہے اسی طرح طالبان بھی افغانستان میں ہونے والی ترقی کو قبول کریں۔