راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ عمران خان نے حکومت بچانے کیلئے آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی جو انہوں نے ٹھکرا دی ۔ آرمی چیف کی پہلے بہت زیادہ تعریف کی گئی ، اب کہا جارہا ہے وہ غدار ہیں ۔
پریس کانفرنس میں لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ آج اپنی ذات کیلئے نہیں ادارے کیلئے آیا ہوں ، احساس ہے صحافی مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہوں گے ۔ جھوٹ بول کر انتشار پھیلایا جارہا ہو تو ادارے کے سربراہ کے طور پر خاموش نہیں رہ سکتا ۔ میری واضح پالیسی ہے کہ میری تشہیر نہ کی جائے ۔ میرے منصب اور کام کی نوعیت ایسی ہے مجھے پس منظر میں رہنا پڑتا ہے ۔ جہاں بھی ضرورت پڑی سچ کو عوام کے سامنے رکھوں گا ۔ ہمارا محاسبہ صبح شام کریں ، پیمانہ یہ رکھیں ملک و قوم کیلئے ہم نے کیا کیا ۔ یہ پیمانہ نہ رکھیں آپ کی خواہشوں کی تکمیل کیلئے ہم نے کیا کیا ۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ مارچ میں ہم پر بہت زیادہ پریشر ڈالا گیا پھر بھی آئینی کردار سے باہر نہ جانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ سیاست سے دور رہنا فرد کا نہیں ادارے کا فیصلہ تھا ۔ میرجعفر ، میر صادق ، جانور اور نیوٹرل غیر قانونی کام کرنے سے منع کرنے پر کہا گیا ۔ پوچھنا چاہتا ہوں آپ کا سپہ سالار میر جعفر اور میر صادق تھا تو ماضی میں تعریفوں کے پل کیوں باندھے گئے ؟ آرمی چیف نے ملک کے حق میں وہ فیصلہ کیا جو ان کی ذات سے متعلق تھا ، آرمی چیف چاہتے تھے جب وہ چلے جائیں تو کسی بھی معاملے میں انہیں متنازعہ نہ بنایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ شہید ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا ، جھوٹ بول کر انتشار پھیلایا گیا تو خاموش نہیں رہ سکتے ۔ یہ نہیں ہوسکتا آپ رات کے اندھیرے میں بند دروازوں کے پیچھے ملاقات کریں ، رات کو ملاقات میں غیرآئینی خواہشات کا اظہار کریں اور دن میں اسی سپہ سالار کو غدار کہیں ۔ اگر آرمی چیف غدار تھے تو انہیں توسیع کیوں دی گئی ؟ جنرل قمر جاوید باجوہ چاہتے تو 7،6 ماہ آرام سے گزار سکتے تھے ۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ اس میں دورائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر ، میر صادق کہنے کی مذمت کرنی چاہئے ۔ جھوٹ سے فتنہ وفساد کا خطرہ ہو تو سچ کا چپ رہنا نہیں بنتا ۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے ۔ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ کینیا کے ہم منصب سے رابطے میں ہیں ۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے کوئی خطرہ نہیں ، پاکستان کو خطرہ صرف عدم استحکام سے ہے ۔ ملک میں عدم استحکام اس وقت آتا ہے جب نفرت اور تقسیم کی سیاست کی جائے ۔ پاکستان میں عدم استحکام اس کی معاشی صورتحال کی وجہ سے نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت اور گالم گلوچ کا کلچر پھیلایا جارہا ہے ۔ ملک دشمن جانتے ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں ، اسی لئے پاکستان میں نفرت کی سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے ۔
نیوز کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات سے متعلق حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی وفات اندوہناک واقعہ ہے ، اس پر ہم سب دکھی ہیں اور دکھ کی اس گھڑی میں ارشد شریف کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ارشد شریف پاکستان کی صحافت کا آئیکون تھے ۔ اُن کی موت کا ایک جھوٹا بیانیہ بنایا گیا ۔ ارشد شریف کی موت کے حوالے سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف کی موت کے معاملے میں اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ، معاشرے میں غیر معمولی اضطراب کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ارشد شریف کی موت کے حوالے سے حقائق کا ادراک کرنا بہت ضروری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے ارشد شریف کیلئے تھریٹ جاری کیا گیا ، صوبائی حکومت کی طرف سے تھریٹ کا مقصد ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کرنا تھا ۔ پلان کے مطابق 9 ستمبر کو ارشد شریف کو ملک واپس آنا تھا ، اداروں کی طرف سے ارشد شریف کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ سلمان اقبال نے ہدایات جاری کیں کہ ارشد شریف کو باہر بھیج دیا جائے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ارشد شریف کو کینیا جانے پر کس نے مجبور کیا ؟ کس نے کینیا میں ارشد شریف کیلئے انتظامات کئے ، کس نے یقین دلایا ارشد شریف کیلئے کینیا محفوظ ہے ۔ خرم اور وقار کون تھے اور ارشد شریف سے ان کا کیا تعلق تھا ؟
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ارشد شریف کی موت کا ذمہ دار فوج کو قرار دینا شروع کردیا گیا ۔ ہمیں انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے ۔ انکوائری رپورٹ آنے تک کسی پر الزام لگانا درست نہیں ۔ ہم کمزور ہوسکتے ہیں لیکن غدار اور سازشی کسی صورت نہیں ۔ عوام کے بغیر فوج کچھ نہیں ، ہمیں ادراک کرنا ہوگا ۔
انہوں نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات سے متعلق حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے ۔ ارشد شریف نے سائفر کے معاملے پر بھی کئی پروگرامز کئے ، 31 مارچ کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ بھی سائفر کی کڑی تھی ۔ سائفر میں پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کو سازش کا حصہ بنایا گیا ۔ فوج کیخلاف ایک مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا گیا ۔ 11 مارچ کو آرمی چیف نے خود کامرہ میں سابق وزیراعظم کو سائفر سے متعلق بتایا ۔ فوج کی لیڈر شپ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، ہر چیز کو غداری سے جوڑا گیا ۔ سائفر پر جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں اور سیاسی فائدے حاصل کئے گئے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق سازش کے کوئی ثبوت نہیں ملے ۔ سابق حکومت کی جانب سے پاک فوج سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی ، لفظ اے پولیٹیکل اور نیوٹرل کو گالی بنا دیا گیا ۔ آرمی چیف نے ہر چیز پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔
انہوں نے کہا کہ 27 مارچ کو جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرایا گیا ، آئی ایس آئی نے واضح بتا دیا تھا حکومت کیخلاف کسی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے ۔ اس کے باوجود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے اور معاشرے میں تقسیم کو جنم دیا گیا ۔ پاکستان کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آج دنیا بھر میں کشمیری قوم یوم سیاہ منا رہی ہے ، پاکستانی قوم کل بھی کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی تھی آج بھی کھڑی ہے ۔ چاہتے ہیں مسئلہ کشمیر کشمیریوں کے حق آزادی کے مطابق حل کیا جائے ۔ پاکستان ہر عالمی فورم پر کشمیریوں کیلئے بھرپور آواز بلند کرے گا ۔