یہ کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے سیکڑوں کیسز روزانہ پنجاب اور بالخصوص لاہور کے سر کاری ہسپتالوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں لاہور کے میو ہسپتال میں ڈاکٹروں کی غفلت و لاپروائی کی وجہ سے معصوم بچی جو آئی۔سی۔یو میں زیر علاج تھی، منہ اور کان میں چیونٹیاں بھر جانے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی۔ ایسے بیسیوں واقعات ہیں جو ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹروں کی غفلت و لاپروائی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں جس کی وجہ سے قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایسا ہی ایک درد ناک واقعہ گذشتہ دنوں پیش آیا جب اوکاڑہ کی دو سالہ علیزہ جس کا 35فیصد حصہ جھلسا ہوا تھا، کو اس کا غریب باپ مقامی ہسپتال لے کر گیا جہاں اسی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئے ڈاکٹروں نے بغیر چیک اور میڈیکل ایڈ دئیے لاہور ریفر کر دیا۔ کسی سے ایمبولینس کا کرایہ ادھار پکڑ کے بمشکل دکھوں اور غموں کا مارا باپ، اپنی بیٹی کو میو ہسپتال ایمرجنسی میں لایا، گھنٹوں ذلیل ہونے،کسی ڈاکٹر کے لفٹ نہ کرانے اور پھر برن یونٹ میں جگہ نہ ہونے کا بہانہ بنا کر پوری رات اسے ذلیل کیا گیا۔بعدازاں چلڈرن ہسپتال لاہور میں بھی کچھ ایسا ہی رویہ روا رکھا گیا۔ جناح ہسپتال میں بھی غیر انسانی رویہ برقرار رکھا گیا تو دکھ اور کرب میں مبتلا اور اپنی بچی کی زندگی کی بھیک مانگتے باپ کی فریاد ایک صحافی تک پہنچی۔ اس نے سوشل میڈیا اس باپ کے ساتھ ہونیوالے ظلم کی داستان شئیر کی اور بالآخر اس ظلم کو خبر کی صورت چلنے پر ہمارے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو بھی خیال آیا۔ انہوں نے فوری طور پر خبر پر ایکشن لیا اور دو سالہ علیزہ کے علاج کے لئے میو ہسپتال میں میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا۔ بالآخر کچھ روز بعد ہی وقت پر علاج نہ ملنے کی وجہ سے دو سالہ معصوم علیزہ کا حال بھی اسی معصوم بچی کی طرح ہوا جو آئی۔سی۔یو میں منہ اور ناک میں چیونٹیاں بھر جانے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔
قارئین کرام!یہ بظاہر آپ کو ایک سادہ سا معاملہ لگ رہا ہو گا لیکن یہ دکھ، کرب اور الم ان والدین سے پوچھیں جن کے معصوم بچوں کو علاج نہ ملنے کی وجہ سے موت کی وادی کا مسافر بننا پڑتا ہے۔ علیزہ کے والدین بھی کئی روز تک اسی کرب میں گذرے۔ شاید کے ہسپتالوں میں بیٹھے دردندہ صفت لوگ وقت پر علاج شروع کردیتے تو علیزہ کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ لیکن جن کے منہ کو حرام لگ چکا ہو۔ جو کرپشن کے مال پر موجیں کر رہے ہوں،یہ بھلا کیسے ان والدین کے دکھوں کو محسوس کر سکتے ہیں۔ بھلا ہوا وزیر اعلیٰ پنجاب کا جنہوں نے ایکشن لیتے ہوئے سیکریٹری صحت کو تبدیل کر کے او۔ایس۔ڈی بنا نے کے احکامات جارے کئے ہیں۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ علیزہ کے قاتل وہ ایم۔ایس، ڈی۔ایم۔ایس اور ایمرجنسی انچارجز ہیں جنہوں نے اس معصوم کو فرسٹ ایڈ بھی نہ دی۔ یہ مافیا اس قدر طاقتور ہے جو خود بھی خوب مال بنا رہا ہے اور اوپر تک مال پہنچا کر اپنی سیٹیں مضبوط بنائے بیٹھے ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مافیازوزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سے بھی طاقتور ہے تو غلط نہ ہو گا جس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے نوٹس کے باوجود بھی جو بچی چیونٹیوں کی وجہ سے جاں بحق ہوئی اس کی رپورٹ کئی روز گذر جانے کے بعد بھی مکمل نہ ہو سکی اور علیزہ کے علاج کے حوالے سے بھی جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے رپورٹ دو روز میں پیش کرنی تھی وہ علیزہ کی موت کے بعد بھی سرد خانے کی نذر ہے۔ صوبائی وزیر صحت سے تو کیا شکوہ؟یہ کسی بھی طرح کی شکایت بھی سننے کو تیار نہیں۔ اس مافیا نے انہیں بھی اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے اور سب اچھا ہے کہ رپورٹ دے کر مطمئن کر دیا جاتا ہے۔اسی کرپٹ ٹولے کی کرپشن اور حرام خوریوں کی وجہ سے لاہور کے سر کاری ہسپتالوں میں مریضوں کو صحت کی عام سہولیات بھی میسر نہیں آتی۔ کبھی سی۔ٹی سکین مشین خراب ہوتی ہے تو کبھی عام سے ٹیسٹ کی مشین جواب دے چکی ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ان کی نا اہلی اور لاپروائی کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ کئی کئی روز گذر جانے کے باوجود بھی مشینیں خراب رہتی ہیں اور پرائیویٹ لیبارٹریوں کی ملی بھگت کی وجہ سے یہ مافیا خوب کمیشن کھاتا ہے۔
قارئین کرام! مجھے یقین ہے کہ جس دن نیب، ایف۔آئی۔اے اور اینٹی کرپشن کی طرف سے لاہور میں تعینات سر کاری ہسپتالوں کے ایم۔ایس اور دوسرے انتظامی عہدوں پر فائز ذمہ داران کے مالی بے ضابطگیوں کا آڈٹ کیا گیا تو بلوچستان اور سندھ کے کرپٹ سر کاری افسروں کی کرپشن بھی بھول جائیں گے۔ یہ سب معصوم علیزہ کے قاتل ہیں اور میری چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے درخواست ہے کہ وہ فوری معصوم علیزہ کے علاج میں غفلت برتنے والے ذمہ داروں کے خلاف از خود نوٹس لیں اور وزیراعلیٰ پرویز الٰہی، ان تمام ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف سخت ایکشن لیں اور انہیں فوری طور پر ان کے عہدوں سے فارغ کر کے تا حیات نا اہل کیا جائے۔ فوری طور پر لاہور کے تمام سر کاری ہسپتالوں میں بچوں کے لئے برن یو نٹ کے قیام کے لئے فوری قدامات کرتے ہوئے فی الفور اس پر کام شروع کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ معصوم علیزہ کے کیس میں انصاف ہوتا دکھائی دے گا اور ہم پھر سے یہ سوال کرتے دکھائی نہیں دیں گے کہ دو سالہ علیزہ کے قتل کا ذمہ دار کون؟؟۔