تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور ڈالر کی قیمت پاکستانی روپوں میں 174 تک پہنچنے کی وجہ سے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا سونامی آ گیا ہے۔ گھی فی کلو 350، چینی 120، دودھ فی کلو 140، سفید چنا 200، لوبیا 300، چاول 200، دال ماش400، آٹا بیس کلو تھیلا1400روپے، ادویات کی قیمتوں میں 400 فیصد اضافہ، صابن، واشنگ پاؤڈر اور مسالہ جات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے مہنگائی سے غریب لوگ شدید متاثر تھے اب سفید پوش لوگ بھی بدترین مہنگائی کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ گزشتہ 3سال میں عوام کی ذرائع آمدن میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ مہنگائی میں دو سو فیصد اضافہ کیا گیا۔ غریب افراد بچوں سمیت اجتماعی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایسی مہنگائی اور بیروزگاری کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں بار بار اضافہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر کیا جا رہا ہے۔ حکمران عوام کے ساتھ تین سال سے جھوٹ بول رہے ہیں۔پہلے کہتے تھے کہ معیشت چھ ماہ میں بہتر ہو گی اس کے بعد ایک سال کا وقت دیا پھر دو سال اور ابھی تین سال پورے ہو گئے ہیں لیکن مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ مزدور، تاجر، سرمایہ دار، صنعت کار، سرکاری ملازمین سمیت ہر طبقہ پریشان ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی کورونا کی وجہ سے آئی ہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا میں بھی کورونا ہے وہاں پر مہنگائی کی شرح پانچ فیصد ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 14فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کے تین سال گزارنے پر خط افلاس سے نیچے جانے والے
افراد کی تعداد چالیس فیصد ہو چکی ہے۔مہنگائی اسی طرح اوپر جاتی رہی تو پچاس فیصد تک تعداد خط افلاس سے نیچے جا سکتی ہے۔حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات کی آڑ میں سارا بوجھ کم آمدنی اور عام شہریوں پر ڈال رہی ہے۔حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر غریب اور عام لوگوں کو دی گئی سبسڈی واپس لے رہی ہے۔مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے۔عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔بدترین مہنگائی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج شروع کر دیا ہے جبکہ وکلا برادری نے بھی مہنگائی کے خلاف عدالتوں کا بائیکاٹ اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔پی ڈی ایم ملکی سطح پر مہنگائی اور بیروزگار ی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اور پورے ملک میں مظاہرے کئے گئے۔اپوزیشن کو عوام کی آواز بننا ہو گا۔ہر حکومت کے لئے تین سال کا عرصہ بہت ہو تا ہے۔اس سے پہلے حکومتیں آئی ایم ایف سے قرضہ لیتی تھیں لیکن عام آدمی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتی تھیں۔موجودہ حکومت کے اقتدار میں ہر ہفتے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر پچاس روپے فی کلو گھی کم کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن اعلان کے دوسرے روز گھی کی قیمت مزید بڑھ جاتی ہے۔حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جھوٹ بولنے سے معیشت ٹھیک نہیں ہوسکی۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمد شہباز شریف نے مہنگائی کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کے اندر کمر توڑ مہنگائی ہے بجٹ جو اس حکومت نے پیش کیا سراسر فراڈ پر مبنی تھا۔یہ جو کہتے تھے کہ بجٹ ٹیکس فری ہے جھوٹ کا پلندہ ہے۔کئی منی ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔بد قسمتی سے منی بجٹ کے بعد منی بجٹ آیا۔پورا پاکستان اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ 74سال میں بدترین حکومت آئی ہے جس سے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ریاست مدینہ کا دن رات نام لینے والوں نے پھر مہنگائی کے ایک اور سیلاب میں عوام کو ڈبو دیا۔صدر مملکت یہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ معیشت کی سمت درست ہو گئی ہے۔صدر مملکت اتنے بے خبر ہیں کہ چینی،گندم کے اسکینڈلز جس میں اربوں،کھربوں غریب قوم کے لوٹ لئے گئے معیشت تباہ ہو گئی،پندر ہ ہزار ارب کے قرضے لئے گئے۔ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی۔انہوں نے کہا کہ اس سیلاب کے سامنے بند نہ باندھا گیا تو کچھ نہیں بچے گا۔نواز شریف کے دورمیں جو ایل پی جی دس ڈالر میں پڑتی تھی آج حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے 56ڈالر میں پڑ رہی ہے۔عوام کی زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔غریب یتیم اور بیواؤں کے آنسوؤں کا ان کو حساب دینا پڑے گا۔اس کمر توڑ مہنگائی کے خلاف ہم سب سے کمر باندھ لی ہے۔ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک پاکستان کے کونے کونے میں عوام کی آواز نہیں بن جاتے۔محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں مہنگائی کے خلاف تقریر کر کے قوم کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی ہے اور عوام کے زخموں پر مرہم رکھا ہے۔ عوام کا صبر جواب دے چکا ہے۔شہباز شریف کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہو گا۔قومی اسمبلی کے اندر اور باہر ملک کے کونے کونے میں مہنگائی کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی۔قوم پاکستان مسلم لیگ(ن)کی طرف دیکھ رہی ہے۔قوم شہباز شریف کی خدمت کی سیاست کو نہیں بھولی ہے۔پورے ملک سے یہ صدائیں بلند ہورہی ہیں کہ ہمیں شہباز شریف چاہیے۔