ٹرمپ اور جوبائیڈن کی انتخابی مہم آخری ہفتے میں داخل

09:01 AM, 27 Oct, 2020

نیویارک: امریکا میں 3 نومبر کو ہونے والی صدارتی انتخاب کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک اُمیدوار جوبائیڈن کی انتخابی مہم آخری ہفتے میں داخل ہوگئی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مہم کے سلسلے میں رواں ہفتے مشی گن، پنسلوانیا، وسکونسن، نیبراسکا، ایریزونا اور نیواڈا کے مزید دورے کریں گے۔

دوسری جانب جوبائیڈن پہلے روز اپنی آبائی ریاست ڈیلوئیر میں ہوں گے جس کے بعد جارجیا، اٹلانٹا اور وارم اسپرنگ کے علاقوں میں بھی جائیں گے۔

ادھر امریکہ میں صدارتی الیکشن سے 9 روز قبل ابتدائی ووٹنگ کی شرح نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔

فلوریڈا یونیورسٹی کے زیر انتظام آزاد امریکی الیکشن پروجیکٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 3 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں اب تک کاسٹ کئے گئے ووٹوں کی تعداد 5 کروڑ 90 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ دوسری جانب الیکشن اسسٹنس کمیشن کے مطابق 2016 میں 5 کروڑ 70 لاکھ رائے دہندگان نے ابتدائی ووٹنگ میں حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

اس سال ٹرن آؤٹ مجموعی طور پر ڈیڑھ کروڑ ہوسکتا ہے جو 2016 کے انتخابات میں تقریباً ایک کروڑ 37 لاکھ تھا۔ ٹیکساس سمیت کئی ریاستوں میں ابتدائی ووٹنگ میں اب تک 80 فیصد سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہو چکے ہیں۔ ٹیکساس قدامت پسندوں کا روایتی طور پر گڑھ رہا ہے جہاں 1980 کے بعد سے ریپبلکن امیدواروں کو کامیابی ملی تاہم موصول شدہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اب وہاں جوبائیڈن اپنے حریف کو شکست دینے کی پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔

ڈیموکریٹکس ابتدائی ووٹنگ کو اپنے لئے حوصلہ افزا سمجھتے ہیں تاہم اس حوالے سے ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ میل اِن بیلٹ میں فراڈ کے خدشے پر ان کے حامی الیکشن والے دن ہی اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے تاہم اس مبینہ فراڈ کا وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کر رہے۔

یہی وجہ ہے کہ فلوریڈا یونیورسٹی کے انتخابی پروجیکٹ کے منتظم اور پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر مائیکل میکڈونلڈ نے اس حکمت عملی کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں سوال کیا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ کے کچھ حامیوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ، ووٹ کی سہولت دستیاب نہ ہوئی یا انتخابی دفتر بند ہوگئے تو کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکساس میں ٹرن آٹ 2016 سے زیادہ ہوگا۔

مزیدخبریں