یہ نوے کی دہائی کے اوائل کی بات ہے۔ میں صحافت کو بطور پیشہ اپنا چکا تھا لیکن ایک اضافی ڈگری کے طور پر قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہماری فیکیلٹی میں اس وقت کی اعلیٰ ترین شخصیات تو شامل تھیں ہی لیکن لاجواب کردار تھا محترم شاہد رحمان صاحب کا۔ کلاس میںتو ان کا رویہ دوستوں کا سا تھا ہی لیکن شام کو طالبعلموں کا ایک گروپ ان کی رہائشگاہ واقع میں بلیواڈ گلبرگ پر پہنچ جاتا اور گپ شپ کے ساتھ ساتھ ان کے فریج اور کچن میں پڑی ہوئی اشیا کا خاتمہ کر کے ہی لوٹتا۔ شاہد صاحب جسٹس (ریٹائرڈ) ایس اے رحمان کے صاحبزادے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قابل وکیل بھی تھے لیکن چونکہ اپنے مزاج کے آدمی تھے اور اقتصادی طور پر خاصے مستحکم تھے اس لیے عدالتوں میں ذرا کم ہی پیش ہوتے تھے۔
ایک دن شاہد صاحب نے اپنے چند خاص شاگردوں جن میں میں، سرمد منظور، احمد حسن، راحت کونین اور چند دیگر شامل تھے، ایک میٹنگ کے لیے کسی کے گھر پر دعوت دی۔ وہاں پہنچنے کے بعد علم ہوا کہ میزبان کا نام شاہد حامد ہے(جو بعد ازاں پنجاب کے گورنر بھی رہے) اور میٹنگ میں شہر کے تقریباً تمام ہی معتبر اور صاحب رائے لوگ شریک ہیں( یعنی نوجوانوں میں صرف ہمارا گروپ ہی تھا) ۔ خیر میٹنگ شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ شاہد حامد صاحب سماجی مسائل کے حوالہ سے ایک این جی او بنانے کے خواہشمند ہیں اور استاد محترم شاہد رحمان اس سلسلہ میں ان کی معاونت فرما رہے ہیں۔ شاہد رحمان صاحب جیسی شخصیت کے ہوتے ہوئے معاملات سرسری طور پر طے ہو جائیں ، یہ تو ناممکن تھا۔ لہذا اس سلسلہ کی میٹنگز کئی روز جاری رہیں ۔
مجوزہ این جی او کے اغراض و مقاصد ایک طویل بحث کے طے پانے کے بعد بات آئی کہ اس این جی اور کا نام کیا ہونا چاہیے ۔ میٹنگ میں موجود تقریباً ہر فرد نے کوئی نہ کوئی نام تجویز کیا۔ جیسے
Movement against social injustice,Move against social ills وغیرہ وغیرہ۔
تقریباً آخر میں شاہد رحمان صاحب اپنی بات کرنے کے لیے اٹھے اور ایسی بات کی کی میٹنگ میں شامل ہر شخص نہ صرف اس سے متفق نظر آیا بلکہ اس بات پر ان کی بے شمار تعریف بھی کی گئی۔ شاہد رحمان صاحب نے انگریزی میں اپنی بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہم ایک اچھے مقصد کے لیے کام کا آغاز کرنے جا رہے ہیں اس لیے ہماری این جی او کے نام میں against' ' جیسے منفی لفظ نہیں ہونے چاہیںبلکہ اس میں for' ' جیسے لفظ کا استعمال ہونا چاہیے تاکہ سننے والے کو ایک مثبت پیغام ملے۔ چونکہ میٹنگ میں موجود ہر فرد اس کی تجویز سے متفق تھا اس لیے نام کے اوپر دوبارہ تجاویز لی گئیں اور بالاخر Movement for Justice and Social Tolerence (JUST) نام پر سب متفق ہوئے۔ اتنی لمبی بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم سب بطور معاشرہ بھی اپنی سوچ اور اعما ل کا رخ مثبت سمت میں رکھیں۔ خاص طور پر ہمارے سیاسی راہنماوں کو تو یہ سبق پڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ویسے تو ہماری ملکی سیاست میں کسی بھی قسم کی منفی سوچ یا رویہ افسوسناک ہے لیکن اگر یہ حرکتیں چوٹی کی وہ قیادت کر رہی ہو جس نے اخلاقیات ،سچائی اور ایمانداری کا جھنڈا بھی اٹھا رکھا ہو تو پھر تو ان کی بھرپور طریقے سے سرکوبی ہونی چاہیے۔ صد افسوس کہ شاہد رحمان صاحب آج اس دنیا میں نہیں ورنہ جیسے بھی ممکن ہوتا میں عمران خان صاحب کو ان سے ضرور ملواتا۔ اور وہ یقینا انہیں منفی سیاست ترک کرنے اور مثبت رویے اپنانے پر قائل بھی کر لیتے۔ اتنے سال ہو گئے خان صاحب کو سیاست میں آئے ہوئے ، اس میں سے کچھ عرصہ تو میری ان سے خاصی قربت بھی رہی ، لیکن کم از کم میرے مشاہدے میں تو نہیں آیا کہ خان صاحب کی سیاست میں کوئی مثبت فیز آیا ہو۔حتیٰ کہ جب وہ بطور وزیر اعظم بھی خطاب فرماتے تھے تب بھی ان کا لہجہ کسی باغی قسم کے اپوزیشن لیڈر والا ہی ہوتا تھا۔ ویسے تو ان کے منفی رویوں کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے لیکن ان کا تازہ ترین کارنامہ افواج پاکستان کے دو اہم ترین عہدوں پر تعیناتی کے مسلہ پر ایک خاص رویہ اپنا کر اپنی جھوٹی انا کو تسکین دینا ہے۔
کتنا مضحکہ خیز لگا وہ عمل جب ہم نے دیکھا کہ ملک کے اہم ترین آئینی عہدہ پر براجمان شخص افواج پاکستان کے سربراہ کی تعیناتی سے متعلق سمری کی فائل بغل میں دابے اسلام آباد سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور صرف اس لیے آتا ہے کہ عمران خان صاحب کی انا کو تسکین حاصل ہو۔ دوسری طرف خان صاحب ملکی سیاست میں ہیجانی کیفیت برقرار رکھنے اور عوام کی زندگی اجیرن بنانے کے لیے ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسے لانگ مارچ کا نام دیں یا حقیقی آزادی مارچ کا لیکن اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ اس کا اصل مقصد اپنے کس من پسند فرد کی تعیناتی کروانے کے لیے پریشر بنانا یا پھر اپنے کسی ناپسندیدہ فرد کی تعیناتی میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت نے کسی بھی قسم کا پریشر قبول کرنے سے یکسر انکار کیا اور میرٹ پر سینئر ترین افسران کی تعیناتی کر دی۔ عمران خان صاحب صاحب کو اب اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی سٹریٹ پالیٹکس اب شائد اپنی معیاد پوری کر چکی ہے ۔ اس کے غبارے سے تو کافی پہلے ہی ہوا نکل چکی تھی لیکن اب تازہ ترین صورتحال میں تو لگتا ہے کہ یہ بالکل ہی پنکچر ہو نے والی ہے۔
ان کے اپنے کمٹڈ کارکنان بھی شائد سالوں سے ایک ہی قسم کی تقریر سن سن کر تنگ آ چکے ہیں جس میں سوائے گالی گلوچ ، الزام تراشی اور دھمکیوں کے کچھ نہیں ہوتا۔ لوگوں کو اس بات کا بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ کارکردگی کے نام پر ان کے پاس بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ورنہ کیا امر مانع تھا کہ یہ اپنی تقریروں میں منفی پراپیگنڈہ کرنے کے بجائے وفاق میں اپنی چار سالہ کارکردگی اور صوبہ پنجاب، خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کی کارکردگی بیان کرتے۔
یقینا ہمارے ملک میں عوام کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ یہ تشدد ، دھمکیاں اور بڑھک بازی کو پسند کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں فلموں میں بھی مولا جٹ قسم کی کہانیا ں ہی کامیاب ہوتی ہیں ۔ لو سٹوری،تاریخی کہانی یا کوئی میوزیکل فلم اگر اپنا خرچہ بھی پورا کر جائے تو بڑی بات ہے۔ نئے انتخابات یقینا اب بہت دور نہیںلہذا یہ وقت ہے کہ ہم اپنے اندر کے مولا جٹ کلچر کی تسکین کو سینما ہالوں کی حد تک محدود کرتے ہوئے قومی سیاست میں مثبت، پختہ اور مستحکم رویے اپنائیں اور ایک ایسی قیادت منتخب کرنے کا عہد کریںجو بڑھک بازی کے بجائے عوام کی بہبود کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔