کوئی مہذب معاشرہ ہوتا، ادارے صرف ’’گلی باتی‘‘ نہیں حقیقت میں اپنا کام دیانتداری سے کررہے ہوتے تو جناب ثاقب نثار کی جو آڈیولیک ہوئی، یامیاں نواز شریف کے بارے میں گلگت بلتستان کے چیف جج نے جوکچھ فرمایا اب تک حتمی فیصلہ بھی اُس کا آگیا ہوتا ،…یہاں تو حالت یہ ہے کہ آڈیولیک کا کوئی نوٹس اور نہ ہی گلگت بلتستان کے چیف جج نے جو کچھ کہا اُسے سنجیدگی سے لیا گیا۔ اِس کے باوجود ہمارے محترم چیف جسٹس آف پاکستان فرماتے ہیں ’’عدلیہ آزادی کے ساتھ اپنا کام کررہی ہے‘‘ …اب یہ بھی دیکھنا پڑے گا عدلیہ کا اپنا کون سا کام ہے جو وہ واقعی آزادی سے کررہی ہے، ہمیں اپنے محترم چیف جسٹس صاحبان کی ہربات تسلیم کرنا پڑتی ہے چاہے اُس میں سچائی ہو نہ ہو، ہم اپنی عدالتوں یا اُن سے وابستہ فرشتوں کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اُوپر سے اگر ہماری سرکار ہماری عدلیہ کی ہم نوالا ’’ہم پیالہ‘‘ ہوتو توہین عدالت کے ساتھ ساتھ ’’توہین سرکار‘‘ کے بھی ہم مرتکب ٹھہرائے جاسکتے ہیں، سو دوعدد’’ توہینوں‘‘ سے بچنے کے لیے ضروری ہے جوکچھ سرکار کہے یا جوکچھ عدلیہ کے فرشتے فرمائیں اُن پر آنکھیں زبانیں ودیگر اعضا مکمل طورپر بند کرکے ہم یقین کرلیں، …جوکچھ آڈیو میں ثاقب نثار نے فرمایا ہے ہمیں چاہیے من وعن اُسے مسترد کردیں، وہ جوکچھ اپنی صفائی میں کہہ رہے ہیں اُس پر یقین کرلیں بلکہ جو کچھ اپنی صفائی میں وہ نہیں کہہ رہے اُس پر بھی یقین کرلیں، کیونکہ جس طرح ہمارے کچھ جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد ’’سوالاکھ‘‘ کے ہوجاتے ہیں اُسی طرح اُن کے تابعدار ہمارے کچھ ججز صاحبان بھی ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ طاقتور ہوجاتے ہیں، وہ عدلیہ سے اگر نکل بھی جائیں کسی نہ کسی اور جج کی مشکل میں اُن کی روح عدالتوں میں موجود رہتی ہے، …جناب ثاقب نثار کی آڈیو لیک کا تاحال کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اِس کا مطلب ہے اُن کی روح موجود ہے جو نوٹس نہیں لینے دے رہی…حد یہ ہے یہ آڈیو جنہوں نے لیک کی اُنہوں نے بھی اِس آڈیو کے حوالے سے کسی عدالت سے ابھی تک رجوع نہیں کیا، ممکن ہے ابھی اُنہیں صرف اتنی ہی اجازت ملی ہو کہ ابھی صرف آڈیو لیک تک ہی رہنا ہے، ہوسکتا ہے اجازت ملنے کے بعد وہ کوئی ویڈیو بھی لیک کردیں جس کے اچھے خاصے چانسز ہیں،… اُس کے بعد بھی ہونا ہوانا تو کچھ ہے نہیں کہ یہاں تقریباً سب ایک دوسرے کے ’’کانے‘‘ ہیں، سب ایک دوسرے کی بہنیں ہیں، ہم نے تو آج تک چوروں کوچوروں کے ہاتھ کاٹتے نہیں دیکھا، سو یہاں کسی کے لیے کوئی فکر مندی نہیں، کسی کی عزت تو بچی نہیں کہ اُسے اپنی عزت لُٹنے کا کوئی خطرہ یا خدشہ ہو، یہاں جو جتنا بے عزت ہو رہا ہوتا ہے وہ خود کو اُتنا ’’عزت دار‘‘ تصور کررہا ہوتا ہے، لوگوں کو اب یہاں صرف شہرت چاہیے چاہے وہ کسی ’’بدنامی‘‘ کی صورت میں ہی کیوں نہ ملے، سابق نثار کے لیے یہ بھی شاید خوشی کا مقام ہوگا جتنی شہرت بطور چیف جسٹس میڈیا میں وہ اپنا آئینی حق سمجھ کر لیتے تھے تقریباً اُتنی ہی ’’شہرت ‘‘ اب مفت میں اُنہیں مِل رہی ہے، اُن کے لیے شرمساری کی کوئی بات نہیں جس پر خود پر لگنے والے الزامات پر خود ہی اپنے ادارے سے وہ رجوع کرلیں، ملنا تو اُنہیں ریلیف ہی ہے حکمران بھی اُن کے اِس قدر ہم نواہیں کہ ثاقب نثار اگرخود بھی یہ کہہ دیں جوکچھ آڈیو میں ہے وہ سب سچ ہے، اِس کے باوجود حکمران کہیں گے نہیں یہ سب جھوٹ ہے …البتہ اُن کے لیے ایک بات ضرور باعث تشویش ہوسکتی ہے کہ ماضی میں وہ جنہیں اپنا ’’دوست‘‘ سمجھتے رہے وہ اُن کی مزید آڈیوزلیک نہ کروادیں… سو اِس ’’متوقع لیکیج‘‘ کو بند کرنے کے لیے جوکچھ اُن سے بن پڑے اُنہیں ضرور کرنا چاہیے… اگر یہ سلسلہ نہ رُکا جس ادارے کا تقریباً آدھی عمر وہ کھاتے رہے ہیں اُسے مزید رسوائیوں سے کوئی نہیں بچا سکتا، ویسے اُن کی اپنی رسوائی (اگر وہ محسوس کریں) یہی کافی ہے اب جس محفل میں وہ جاتے ہیں لوگ اُن پر انگلیاں اُٹھاتے ہیں، ہماری دعا یہ ہے معاملہ صرف اُنگلیاں اُٹھانے تک ہی محدود رہے، لوگ اُن سے سوال کرتے ہیں، اب کس کس کو منیر نیازی کا یہ شعر اپنی اپنی ناقص نثر میں وہ سناتے رہیں گے ’’کسی کو اپنے عملوں کا حساب کیا دیتے …سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے ‘‘ …یہاں نہیں تو کہیں نہ کہیں جواب اُنہیں دینا پڑے گا، اور عمر کے وہ جس حصے میں ہیں جلدی دینا پڑے گا، …نون لیگ کی ایم این اے ملک پرویز مرحوم کے جنازے میں اُنہیں میں نے دیکھا، کوئی اُنہیں منہ نہیں لگا رہا تھا،’’گواچی گاں‘‘ کی طرح جنازہ پڑھ کروہان سے وہ فرار ہوگئے، …’’اِس طرح تو ہونا ہے اِس طرح کے کاموں میں ‘‘ …وہ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے اِس معاشرے یا عوام کی یاداشت بہت کمزور ہے، اُن کی جو آڈیو لیک ہوئی ہے اُس کے اثرات چند دنوں میں خود بخود ختم ہو جائیں گے اور یہ معاملہ اُن کی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا، ممکن ہے لوگ اِس معاملے کو واقعی بھول جائیں مگر ایک متنازعہ جج کے طورپر تاریخ اُنہیں ہمیشہ یاد رکھے گی، اُن کا شمار اب ملک قیوم جیسے ججوں میں ہوگا اورمیرے خیال میں زندگی میں اُن کی یہ خواہش بھی کبھی نہیں رہی کہ اُن کا شمار جسٹس کارنیلس، جسٹس صمدانی یا جسٹس بھگوان داس جیسے عظیم ججوں میں ہو، اگر یہ اُن کی خواہش ہوتی بطور چیف جسٹس آف پاکستان خالی ’’ رولا شولا‘‘ پاکے یا صرف نمائشی کام کرکے ریٹائرڈ ہونے کے بجائے کچھ ایسے کارنامے کرکے وہ ریٹائرڈ ہوئے جن سے عدلیہ پر لگے ہوئے کچھ داغ ختم ہو جاتے، … میں سوچ رہا ہوں کچھ لوگ کتنے محروم کتنے بدقسمت ہوتے ہیں کہ تاریخ اُنہیں ایک منفرد وباوقار مقام دینے کے لیے تیار ہوتی ہے اور اِس سنہری موقع کو اپنی بداعمالیوں سے وہ ضائع کردیتے ہیں، اصل میں عہدے سنبھالنے کے بعد وہ اتنے بدنیت اتنے منافق اتنے جھوٹے ہو جاتے ہیں قدرت نے اُن کے لیے جو نیک نامیاں سوچی ہوتی ہیں وہ بدنامیوں میں بدل جاتی ہیں، رسوائیوں میں بدل جاتی ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ لوگوں کی بدکاریاں لوگوں کوہمیشہ یاد رہتی ہیں، مگر اِس حوالے سے جو منفرد مقام افتخار محمد چوہدری اورثاقب نثار نے حاصل کیا اُس کی الگ ایک شناخت ہے، افتخار محمد چودھری کے زمانے میں، میں نے عرض کیا تھا ’’پہلے قانون اندھا ہوتا تھا اب کانا ہوتا ہے، اورثاقب نثار کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ جسٹس نسیم حسن شاہ یاد آئے تھے، وہ بھٹو کو پھانسی دینے والے ججوں میں شامل تھے، یہ پھانسی اُنہوں نے اصل میں بھٹو کو نہیں اپنے ادارے کو دی تھی، … افتخار محمد چودھری اورثاقب نثار سے لوگوں نے بے پناہ اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں، افسوس یہ بھی عدلیہ کے عمران خان ہی نکلے۔
ہم نے پھولوں کی آرزوکی تھی
آنکھ میں ’’موتیا‘‘ اُتر آیا
کاغذی پھول!
08:35 AM, 27 Nov, 2021