گھریلو ملازمین ایکٹ 2019پر عمل کیوں نہیں؟

08:17 AM, 27 Nov, 2021

 پچھلے دنوں میں نے ایک سیمینار میںشرکت کی جو کہ گھریلو ملازمین کے بارے میں تھا۔وہاں گھریلو ملازمین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اس سیمینار میں ملازمین نے اپنے اپنے خیالات  اور تحفظات سے آگاہ کیا کہ ڈومیسٹک ا\یکٹ 2019 پنجاب اسمبلی سے پاس تو ہو گیا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے یہ ورکرز اس بل کے پاس ہونے کے بعد بھی اس بل سے مستفید نہیں ہو رہے۔ 
اب اس بل کی چند ایک اہم شقوں کو ہم دیکھتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے ورکرز کو کیا کیا پریشانیاں ہیںاور کیوں یہ ایکٹ ابھی تک مکمل نافذالعمل نہیں ہو سکا  اور ساتھ ساتھ میں کچھ تجاویز بھی پیش کرتی رہوں گی۔ اس ایکٹ کی شق 2B میں یہ کہا گیا کہ گھریلو ورکرز کو ویلفیئر فنڈ سے مدد کی جائے گی اس وہ اس فنڈ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن اس میں پریشانی یہ سامنے آ رہی ہے کہ کون سے ویلفیئر فنڈ سے ان کی مدد ہو گی اور کون سا ادارہ ہے جہاں سے یہ لوگ فائدہ لے سکتے ہیں اس شق میں کسی بھی ادارے کا نام نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ورکرز کبھی کسی دفتر جا رہے ہیں کبھی کسی دفتر جا رہے ہیں۔ ادارے بھی کنفیوژن کا شکار ہیںکہ یہ لوگ کس طرح اس ویلفیئر فنڈ سے مستفید ہو سکتے ہیں؟ یہ لوگ کبھی ڈسی سی او آفس، کبھی سوشل سکیورٹی اور کبھی بیت المال کے دفتر جاتے ہیں مگر کوئی بھی ان کو بہت طریقے سے رہنمائی نہیں کر پاتا۔ حکومت کو اس شق کی تشریح کرنی چاہیے کہ وہ کون سا ادارہ ہے جہاں سے یہ لوگ اس فنڈ کو حاصل کو سکتے ہیں۔
سیکشن 2Dکے تحت ان کی کم از کم اجرت کا تعین سیکشن3 آرڈیننس 1961کے تحت کرنے کا کہا گیا لیکن اس کی بھی تشریح نہیں کی گئی کہ گھریلو ملازمین کی اجرت کم از کم کیا ہو گی کیونکہ 1961 کے ایکٹ میں مزدورں کی بات کی گئی ہے مگر گھریلو ملازمین اور مزدوروں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس لئے ایکٹ 2019 کی شق 2D کی تشریح بہت ضروری ہے کہ ان کی اجرت اور کام کا دورانیہ کیا ہو گا؟
ایکٹ 2019کی شق 2Gکے تحت گھریلو ملازم کی جو تشریح کی ہے کہ وہ گھر کے تمام کام کاج بچوں کی حفاظت اور بوڑھوں کی حفاظت، بیماروں کی حفاظت اور دوسرے گھریلوکام کاج ہیں۔لیکن یہاں پر اُن کی عمر کا یقین نہیں کیا گیا کہ اگر بچوں کی حفاظت کے لیے ملازم رکھا گیا ہے تو اُس کی عمر کیا ہو گی اور اُس کے کام کاج کا دورانیہ کیا ہوگا۔اسی ایکٹ کی شق نمبر 3 میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ 15سال سے کم عمر کا ملازم گھر میں نہیں رکھا جائے گا۔ مگر اس پر ایک فیصد بھی عملدآمد نہیں ہو رہا اس پر عملدآمد کرانے کے لیے کس محکمے نے کارروائی کرنی ہے اس محکمے کو بھی ہائی لائٹ یا نمایاں نہیں کیا گیا۔اس پر عمل کرانے کیلئے پولیس کی مدد بھی لی جا سکتی تھی مگر پولیس کا اس میں ذکر نہیں۔
سیکشن 4/6 کے تحت گھریلو ملازمین بیماری کے دوران اپنی میڈیکل لیو سوشل سکیورٹی 1965 کے تحت لے سکتے ہیں لیکن سوال یہاں پر یہ ہے کہ کتنے گھریلو ملازمین گورنمنٹ آف پنجاب نے رجسٹرڈ کیے اور کتنے لوگوں کو سوشل سکیورٹی کارڈ جاری کیے۔ پھر سیکشن 5/2میں یہ کیا گیا کہ جو مالک ہو گا وہ  رکھنے والے ملازم کی اپوائنمنٹ کی کاپی محکمے کو ارسال کرے گا پھر متعلقہ انسپکٹر جا کر اس کی جانچ پڑتال کرے گا اور چیک کرے گا لیکن اب تک یہ فیصلہ ہی نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کی تشریح ہوئی کہ کونسے انسپکٹر اور کس محکمے کے انسپکٹر نے جا کر انہیں دیکھنا ہے۔
سیکشن 6 میں ان کی چھٹیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ گو رنمنٹ لاء کے مطابق سال میں 18چھٹیاں کر سکتے ہیں بیماری کی حالت میں چھٹی کرنے پر ان کی تنخواہ نہیں کٹے گی۔ جو تہوار آتے ہیں اُن پر ان کو چھٹی ملے گی۔ جیسے عید، 14اگست وغیرہ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اُن لوگوں کو ایک بھی چھٹی ان تہواروں پہ نہیں ملتی بلکہ ان ملازمین کا کام ڈبل ہو جاتا ہے گورنمنٹ کو چاہیے کہ ان گھر یلو ملازمین کے لیے ایک ایسا محکمہ بنا دیتے جو  ان گھریلو ملازمین کو ہی ڈیل کرے صرف پنجاب میں ہی لاکھوں کی تعداد میں گھریلو ملازمین موجود ہیں۔
سیکشن 8 کے تحت کہا گیا کہ ان کی کم از کم تنخواہ اُن کے ٹائم پیریڈ کے حساب سے رکھی جائے گی لیکن کتنا ٹائم پیریڈ ہونا چاہیے۔ اور اُس ٹائم پیریڈ کی فی گھنٹہ تنخواہ کیا ہونی چاہیے ان کی کتنی تنخواہ ہو گی اور کس حساب سے ہو گی اس کی بھی اس سیکشن میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ اس ایکٹ کو پاس کر لینا ہی کافی نہیں ہے۔ اس ایکٹ میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جس کی تشریح کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس ایکٹ کے پاس ہونے سے بھی گھریلو ملازمین اس سے مستفید نہیں ہو رہے اور نہ ہی مالک اس ایکٹ کے تحت ملازمین کو حقوق دے رہے ہیں۔ اور نہ ہی متعلقہ محکمے پوری طرح ان ملازمین کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ حکومت پنجاب کو چاہئے کہ ایک سٹنگ آپریشن کرے اور تمام گھریلو ملازمین کی رجسٹریشن کا کام خود کرے اس طرح ان کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ کتنی بڑی تعداد میں گھریلو ملازمین ہیں۔ اس لیے حکومت کو اس ڈومیسٹک ایکٹ 2019 کو نافذالعمل کرنے کے لیے ایک الگ سے محکمہ اُن ملازمین کے لیے رکھنا ہو گا جہاں ہر اس ایکٹ کے تحت تمام سہولیات مل سکیں اور ملازمین کی شکایات کا ازالہ بھی ایک ہی چھت تلے ہو ۔اور وہ ادارہ کرپشن سے پاک ہو اور اُس ادارے پر کوئی سیاسی اثر و رسوخ نہ ہو اور اس ادارے کے اختیارات اتنے ہوں کہ کسی بھی امیر اور سیاست دان پر ہاتھ ڈال سکے۔ اور ملازمین کو حق مل سکے۔ میرے کالم کا مقصد بھی یہی ہے کہ حکومت نے ایکٹ 2019 کو پاس تو کر لیا مگر اس پر عملدآمد کرنے سے قاصر ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ میرے اس کالم کے بعد حکومت اس ایکٹ کو نافذالعمل کرے۔

مزیدخبریں