اسلام آباد: وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کے بعد حکومت اور دھرنا مظاہرین میں مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے خادم حسین رضوی نے کہا کہ گرفتار اور لاپتہ کارکنوں کے فیض آباد پہنچنے کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کریں گے لیکن راستے بند نہیں کریں گے۔ دھرنا ختم ہونے کے اعلان کے بارہ گھنٹے کے دوران علاقہ خالی کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ راستے فوری طور پر کھولنا شروع کر دیں گے اور جن لوگوں نے ہڑتال کی ہے وہ فوری ختم کرسکتے ہیں تو ختم کر دیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ لاپتہ کارکنوں کی فہرست موجود نہیں لیکن کئی افراد لاپتہ ہیں۔
انہوں نے ملک بھر میں موجود اپنے قائدین سے کہا کہ وہ مختلف شہروں میں جاری دھرنا ختم کردیں اور کارکنان اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں جبکہ آج کی ہڑتال بھی ختم کرکے دکانیں کھول دی جائیں۔
پریس کانفرنس میں خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ ہم لاہور سے صرف اور صرف ختم نبوت کی حفاظت کے لیے چلے تھے ہمارا مطالبہ تھا کہ وزیر قانون کو برطرف کریں لیکن ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ہم پر الزامات لگئے گئے جن کی کوئی حیثیت نہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی نے کہا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے نمائندے بھیجے جن سے معاہدہ کیا گیا اور انہوں نے ہمارے مطالبات پورے کیے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ یہ مطالبات ہمارے شہداء کے خون کی قیمت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے جو مطالبات پورے ہوئے ہیں ان کے مطابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ علماء کے سامنے بیان دیں گے اس بیان کی روشنی میں علماء کا بورڈ جو فیصلہ کرے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔ علماء بورڈ کے سربراہ پیر محمد افضل قادری ہوں گے، اس کے علاوہ پیر حسین الدین شاہ، مفتی منیب الرحمن ، پیر عنایت الحق شاہ، مفتی سبحان قادری کے سامنے بھی رانا ثناءاللہ پیش ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ عدالتی سزا یافتہ ناموس رسالت کے قیدیوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ لاوڈ اسپیکر کے استعمال پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ ان کی ماں اور بہن کو اعتماد میں لے کر اقدامات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ نصاب بورڈ میں تبدیلی کے لیے ہماری تحریک کے 2 نمائندے شامل ہوں گے جو نصاب میں قرآن کا ترجمہ اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم و اکابرین امت کے اسباق شامل کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ 9 نومبر کو یوم اقبال کی چھٹی بحال کی جائے گی۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ شہداء کا چہلم جمعرات 4 جنوری کو 10:00 بجے دن لیاقت باغ راولپنڈی میں منعقد ہو گا جبکہ ہر سال 25 نومبر کو شہداء ناموس رسالت کا دن منایا جائے گا۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق وفاقی وزیر قانون نے بحرانی کیفیت ختم کرنے کے لیے وزارت سے رضاکارانہ طور پر اپنا استعفیٰ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھجوا دیا ہے تاہم زاہد حامد اپنے استعفیٰ پر تفصیلی بیان بھی جاری کریں گے جب کہ وزیراعظم کی جانب سے آج ہی ان کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق فیض آباد دھرنا مظاہرین کو قائدین نے ہدایت کی ہے کہ اپنا سامان اکھٹا کریں اور گاڑیاں سیدھی کر لیں۔ اس صورت حال کے بعد اسلام آباد کی سڑکوں سے کنٹینرز ہٹنا شروع ہو گئے اور سڑکیں کھلنا شروع ہو گئیں۔
ادھر اسلام آباد کے آئی ایٹ سیکٹر میں موبائل فون اور انٹر نیٹ سروس بحال ہونا شروع ہو گئی۔ دوسری جانب ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں دھرنے اور احتجاج ختم ہونے لگے۔ کراچی میں ناگن چورنگی کے قریب دیا گیا دھرنا مظاہرین نے ختم کر دیا۔
اس سے قبل حکومت اور دھرنا دینے والی مذہبی جماعت لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے جس کی پہلی شرط کے مطابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے اپنے عہدے سے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیا ہے۔
اس معاہدے کی پہلی شق میں دھرنا مظاہرین کا مطالبہ درج ہے کہ وزارت قانون کے ذریعے ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون میں ترمیم پیش کی گئی اس لیے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو ان کے عہدے سے برطرف کیا جائے، تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔
اس معاہدے کے دیگر مندرجات میں دھرنا قائدین کی جانب سے حکومت پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017ء میں 7بی اور 7سی کو مکمل متن کے ساتھ اردو حلف نامے میں شامل کرنے کے عمل کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کہ راجہ ظفر الحق کی انکوائری رپورٹ 30 دن میں منظر عام پر لائی جائے گی اور اس رپورٹ کے مطابق جو افراد ذمہ دار قرار پائیں گے ان کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
معاہدے کی کاپی
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ 6نومبر 2017ء سے دھرنے کے اختتام پذیر ہونے تک تحریک لبیک کے ملک بھر میں گرفتار تمام کارکن 1تا 3 دن تک ضابطے کی کارروائی کے مطابق رہا کردیے جائیں گےاور ان کے خلاف درج مقدمات اور نظر بندیاں ختم کردی جائیں گی۔
معاہدے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 25نومبر 2017ء کو ہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف تحریک لبیک کو اعتماد میں لے کر ایک انکوائری بورڈ تشکیل دیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کرکے حکومت ، انتظامیہ اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا تعین کرے اور 30 روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
معاہدے میں مزید کہا گیا ہے کہ 6نومبر 2017ء سے دھرنے کے اختتام تک جو سرکاری اور غیرسرکاری املاک کا نقصان ہوا ہے اس کا تعین کرکے ازالہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کریں گی۔
معاہدے کے مطابق یہ حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہے، ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا ہے جس کے لیے ان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا۔
معاہدے کے آخر میں 6 افراد کے دستخط ہیں جن میں سے حکومت کی جانب سے دو افراد وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا، تحریک لبیک کی جانب سے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی، سرپرست اعلیٰ پیر محمد افضل قادری، مرکزی ناظم اعلیٰ محمد وحید نورجبکہ بوساطت میجر جنرل فیض حمید کے نام و دستخط شامل ہیں۔
پس منظر
اس سال اکتوبر کے اوائل میں پاس ہونے والے الیکشن ایکٹ 2017 میں شامل چند ترامیم پر تنازع کھڑا ہوا جسے حکومت نے محض 'غلطی' قرار دیا لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ ذمہ دار افراد کے خلاف جوڈیشل انکوائری کی جائے۔
یہ ترامیم احمدیہ جماعت سے متعلق تھیں جنھیں حکومت پاکستان نے 1974 میں ایک آئینی ترمیم کے تحت غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔ حزب اختلاف کی جانب سے نشاندہی کے بعد حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ان شقوں کو ان کی پرانی شکل میں بحال کر دیا تھا۔
دو سیاسی جماعتوں، تحریک لبیک یا رسول اور سنی تحریک نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت اور جماعت احمدیہ سے متعلق شق کو جان بوجھ کر بدلا اور اسے ایک بڑی سازش کا حصہ قرار دیا۔
دونوں جماعتوں نے الزام لگایا کہ وزیر قانون زاہد حامد ان ترامیم کے ذمہ دار ہیں اور ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے انھوں نے حکومت کے خلاف اسلام آباد میں نو نومبر سے دھرنا دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو دھرنا ختم کرنے کے عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا جس کے بعد اسلام آباد کی انتظامیہ نے دھرنے کے مظاہرین کو 25 نومبر کی صبح سات بجے تک دھرنہ ختم کرنے کی ایک بار پھر 'آخری تنبیہ' جاری کی۔دھرنا ختم کروانے کے لیے کی جانے والی کارروائی میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم چھ افراد ہلاک اور دوجنوں زخمی ہوئے تھے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں