اس وقت پیارے ملک پاکستان کو اور پاکستانی عوام کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، وہ امن و سکون ہے۔ لیکن جس جانب بھی نگاہ ڈالیں بے سکونی اور بے یقینی کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ عمرا ن خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں عوام کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔اس سارے عرصے میں آئے روز اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ ادویات کی قیمتیں اسقدر بڑھ گئیں کہ یہ غریب اور سفید پوش عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ اس قدر مہنگائی کے باوجود ظلم یہ تھا کہ حکمرانوں کو عوام کے دکھوں کا احساس نہ تھا۔حکومت کی توجہ سیاسی مخالفین کوچور ڈاکو قرار دینے پر مبذول رہی۔ سیاسی انتقام میں مصروف حکومت کو عوام کے مسائل کی طرف توجہ دینے کا وقت ہی نہیں مل سکا۔ معاشی حالت بد سے بد ترین ہوتی چلی گئی۔ خارجہ پالیسی کی بھی کوئی سمت نہ رہی۔ چور ڈاکو کی تکرار نے معاشرے میں سیاسی عدم برداشت کو بھی رواج دیا۔کم و بیش ساڑھے تین برس کے بعد تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت رخصت ہو گئی۔ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ تحریک انصاف حکومت کی رخصتی کے بعد سب کو اندازہ تھا کہ سیاسی محاذ پر گرما گرمی دیکھنے کو ملے گی۔ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو گی۔ ایک دوسرے کے لتے لئے جائیں گے۔ لیکن اس کے باوجود امید بندھ چلی تھی کہ ملکی حالات میں بہتری کے آثار دکھائی دینے لگیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف سے لوگوں کو امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ ملک کی ڈولتی کشتی کو درست سمت میں گامزن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
افسوس اب تک یہ امیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ ملکی حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ مہنگائی کی کیفیت جوں کی توں ہے۔ حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا مگر یہ وعدہ ابھی تک وفا نہیں ہو سکا۔ معاشی حالات کو درست کرنے کی کوششوں کی کامیابی کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومت معیشت کو اس قدر ابتر حالت میں چھوڑ کر گئی ہے کہ معاشی حالات کے سدھار میں طویل عرصہ درکار ہو گا۔
گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ قومی سیا ست میں اسقدر مفاد پرستی ، بہتان تراشی اور بد کلامی در آئی ہے کہ سیاست سے دل اچاٹ ہوا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ عوام الناس کا ایک قابل زکر حلقہ سیاست دانوں سے مایوس ہو گیا ہے۔ رنج کی بات یہ ہے کہ اس صورتحال میں قومی اداروں کا تاثر بھی مثبت نہیں رہا۔ اس ساری مایوسی اور بے دلی کے باوجود آدمی ملکی حالات کے بارے میں بے فکر اور بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ بہ امر مجبوری ، اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کا جائزہ لینا پڑتا ہے، تاکہ ملک کے حالات کی خبر ہو سکے۔ ہر مرتبہ جب ٹی ۔وی چینل آن کریں یا اخبارات کھولیں تو مایوس کن خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ سب سے برے حالات معیشت کے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ملک تیزی سے دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ معاشی صورتحال اسقدر ابتر ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ ملک خدانخواستہ سری لنکا جیسی صورتحال سے دوچار نہ ہو جائے۔ تشویشناک خبر یہ ہے کہ آئی۔ایم۔ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ آئی۔ ایم۔ ایف کا کہنا ہے کہ عمران حکومت ان سے پٹرول اور بجلی کے حوالے سے کچھ وعدے اور معاہدے کر کے گئی ہے۔ اس معاہدے کی رو سے اب قرض کی قسط تب ہی جاری ہو گی جب بجلی اور پٹرول پر سبسڈی ختم کی جائے گی۔ اب سیاسی حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آئی۔ ایم۔ایف کی بات مان جاتی ہے تو عوا م الناس کے لئے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کا بوجھ اٹھانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس سے مسلم لیگ ن کی حکومتی اور سیاسی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو گی۔
ایک ایسے وقت میں جب معیشت کی کشتی ڈوبنے کے قریب ہے، عمران خان نے جلسے جلوسوں کے زریعے ملک میں ایک ہیجان بپا کر رکھا ہے۔ جوابا مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں بھی جلسے کرتی نظر آتی ہیں۔ اگرچہ ہم کہتے سنتے ہیں کہ جلسے جلوس کرنا ہر سیاسی جماعت کا قابل جوا ز حق ہے۔ تاہم حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو جلسے جلوس کا بھی کوئی وقت ، کوئی موسم ہوتا ہے۔ یہ کیا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور سیاست دانوں کو اپنے اقتدار اور کرسی کا غم کھائے جائے۔ جلسوں کی حد تک تو پھر بھی ٹھیک تھا۔ لیکن آزادی مارچ کے نام پردارلحکومت اسلام آباد پر چڑھائی کرنا۔ دیگر شہروں میں فساد برپا کرنا۔ گرین بیلٹ کو جلانا۔ پولیس کی گاڑیوں کا نذر آتش کرنا۔ ملک میں فساد کی آ گ بھڑکانا ، یہ کہاں کی سیاست ہے؟ کیا یہ حب الوطنی ہے؟
دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس دن ہوا جس دن بھارت میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ، آزادی کشمیر کے مجاہد ، یسین ملک کو ایک جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی جانی تھی۔ یسین ملک کی بیوی مشعال ملک نے عمران خان سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کی تھی کہ وہ اپنے سیاسی مارچ کی تاریخ کو ایک دو دن آگے بڑھا دیں تاکہ پاکستان کی توجہ یسین ملک کی طرف مبذول رہے۔اور اس دن پاکستان میں بھارت کے خلاف اور یسین ملک کے حق میں احتجاج اور دیگر سرگرمیوں کے انعقاد پر توجہ دی جا سکے۔ عمران خان نے مگر ان کی بات پر کان نہیں دھرا۔ بھارتی عدالت نے یسین ملک کو ایک جھوٹے مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی تو پاکستان میں تحریک انصاف کے حامی اسلام آباد کے جلاوگھیراو میں مصروف تھے۔ حکومت پاکستان یسین ملک سے اظہار یکجہتی کرنے کے بجائے، تحریک انصاف کے کارکنوں سے نمٹنے میںکوشاں تھی۔ ہمارا میڈیا کشمیر اور یسین ملک کی کوریج کرنے کے بجائے، اسلام آباد میں لگنے والی آگ اور توڑ پھوڑ کی خبریں عوام تک پہنچانے میں مگن تھا۔ نجانے کشمیری ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ہمارے رویے سے کس قدر مایوس ہونگے۔ البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی صورتحال یقینا بھارت کے لئے تسکین اور اطمنان کا باعث بنی ہو گی۔