اسلام آباد: سپریم کورٹ میں انتخابات میں تاخیر کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بنچ میں شامل ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تین خلاف ورزیاں کیں۔ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو منسوخ کیا ۔ پنجاب میں انتخابات کی نئی تاریخ دی جسکا اسے اختیار حاصل نہیں تھا ۔ نوے دنوں سے زائد وقت میں انتخابات کیلئے تاریخ دینا آئینی سے انحراف ہے ۔
علی ظفر نے کہاکہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے متوازی فورم کے طور پر فیصلہ نہیں دے سکتا اگر پارلیمنٹ چاہے تو آئین میں ترمیم کرکے جتنا چاہے انتخابات میں تاخیر کر لے ۔ نقص امن اور فنڈز کی کمی کی بنیاد پر انتخابات ملتوی کرنے کا آئین میں کوئی ذکر نہیں ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے علی ظفر سے پوچھا کہ آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کیلئے ہائی کورٹ سے کیوں رجوع نہیں کرتے؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ ہمارا کیس عمل در آمد کا نہیں بلکہ آئینی سوال سے متعلق ہے ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہی سوال متعلقہ ہائی کورٹ میں بھی لیکر جاسکتے ہیں ۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس وقت جو رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اسے صرف سپریم کورٹ ہی دور کر سکتی ہے ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اہم ریماکس دیے کہ ہمارے حکم پر عملدرآمد ہوا یا نہیں میں اس نظر سے کیس کو نہیں دیکھ رہا۔ سوال یہ ہے کہ 90 دن سے آگے انتخابات لے کر جاتے ہیں تو کیا آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے؟ہم کورٹ آف لا ہیں ہم نے یہ دیکھنا ہے،بینظیر شہادت پر 40 دن انتخابات آگے گئے تھے تو قومی ہم آنگی موجود تھی کسی نے اس کو چیلنج نہیں کیا تھا، اس بار عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ یہ دیکھے گی کہ کیا صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو الیکشن کمیشن بدل سکتا تھا۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل کو کہا کہ تحریک انصاف کو پیغام دے دیں کہ پر امن رہیں حالات کو خراب نہ کیا جائے۔ عوام کے حقوق کی پامالی نہیں ہونے دینگے۔ اٹارنی جنرل سے بھی کہتا ہوں کہ دونوں طرف سے حالات کو سازگار رکھا جائے ۔ سپریم کورٹ نے سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور گورنرز سمیت پی ٹی آئی کی پٹیشن میں شامل تمام فریقوں کونوٹس جاری کردیا۔