قاہرہ : مصر کی نہر سوئز میں پھنسے مال بردار بحری جہاز کو اب تک نہیں نکالا جا سکا ۔آبی گزر گاہ بند ہونے سے عالمی تجارت کو ایک منٹ میں ایک ارب 4 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔کارکو کے ریٹس بھی دوگنے ہوچکے ہیں۔ امریکا نے جہاز کو ہٹانے کیلئے مدد کی پیش کش کردی ہے۔راستہ بند ہونے سے مال بردار بحری جہازوں کی قطاریں بھارت تک پہنچ گئی ہیں۔
نیو نیوز کے مطابق منگل 23 مارچ سے نہر سوئز میں پھنسے ایورگرین نامی بحری جہاز سے دنیا کی اہم آبی گزر گاہ بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ عالمی تجارت اور تیل منڈیوں پر اس کے اثرات پڑنے لگے ہیں ۔دنیا بھر میں تیل کی سپلائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
راستے بند ہونے کے باعث انتہائی اہم گزرگاہ سے گزرنے والے جہازوں کی قطار بڑھتی چلی جارہی ہے اور یہ قطار بھارت تک پہنچ گئی ہے اور اس سے عالمی تجارت کو فی گھنٹہ 62 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہورہا ہے ۔
روسی جریدے ’گزٹ‘ کے مطابق نہرسوئز سے جہاز رانی میں تعطل سے عالمی تجارت کو فی گھنٹہ 400 ملین ڈالر سے زائد اور فی منٹ 6اعشاریہ 66ملین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔
ادھر امریکا نے بحری جہاز کو نکالنے کے لئے مدد کی پیش کش کر دی ہے۔صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ بحری جہاز کو نکالنے کیلئے امریکہ صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔ ہمارے پاس بحری جہاز کو نکالنے کیلئے صلاحیت موجود ہے۔نہر سوئز میں پھنسے بحری جہاز کو نکالنے کیلئے امریکہ کے پاس آلات موجود ہیں۔
واضح رہے کہ مصر کی نہر سوئز کو گذشتہ منگل سے بلاک کرنے والے دیو ہیکل مال بردار بحری جہاز کے جاپانی مالک نے اس کے باعث عالمی تجارت میں پیدا ہونے والے خلل پر معذرت کر لی ہے۔
اس مال بردار جہاز کے مالک شوئی کسین کائیشا کا کہنا تھا کہ بحری جہاز ایور گیون کو اس صورتحال سے نکالنا 'انتہائی مشکل' ثابت ہو رہا ہے لیکن وہ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
چین سے نیدرلینڈز کے شہر راٹرڈیم جانے والا یہ چار سو میٹر لمبا بحری جہاز تیز ہواؤں کے باعث توازن اور سمت برقرار نہ رکھ سکا جو نہر کو بلاک کرنے کا سبب بنا۔
نہر سوئز بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملاتی ہے اور وہ ایشیا کو یورپ سے ملانے کا سب سے تیز سمندری راستہ ہے۔ڈیڑھ سو سال قبل بنائی جانے والی سوئز کنال 193 کلو میٹر طویل اور اس کی چوڑائی 205 میٹر ہے اور کہا جاتا ہے کہ عالمی بحری تجارت کا 12 فیصد حصہ اس نہر سے گزرتا ہے۔
مصری حکام کے مطابق آٹھ چھوٹی کشتیوں کے ایک بیڑے نے ایورگرین کو اس مقام سے ہٹانے کے لیے جمعرات کی صبح پھر سے کوششیں شروع کیں۔
ایک ریسکیو کمپنی کے سربراہ نے جو اس آپریشن میں معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں خبردار کیا ہے کہ اسے نہر سوئز سے نکالنے میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں اور اس پر سے کنٹینر ہٹا کر اس کا وزن کم کرنا پڑے گا۔