لندن: کرائسٹ چرچ مساجد حملے کے بعد مسلمانوں کیخلاف مذہبی منافرت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اور اب برطانیہ کے شہر نیوکاسل میں مذہبی منافرت کا ثبوت دیتے ہوئے مشتعل افراد نے نیو کاسل اسلامک سینٹر پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی ہے اور اسے نذرآتش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق نیو کاسل اسلامک سینٹر پر حملے کے الزام میں چھ مشبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن حملہ آور کی گرفتاری ممکن نہیں بنائی جا سکی ہے۔نیوکاسل اسلامک سینٹر پر دو ماہ میں دوسری مرتبہ حملہ کیا گیا ہے۔علاقہ پولیس پرامید ہے کہ تفتیش کے نتیجے میں جلد حقائق سامنے آجائیں گے کیونکہ جن مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔
برطانیہ، یورپی ممالک اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف اظہار نفرت کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔بی بی سی کے مطابق نیو کاسل میں ہونے والے حملے میں توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد جن چھ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں دو لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
بی بی سی نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلامک سینٹر پرحملے کے دوران مشتعل افراد نے عمارت کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچانے کے علاوہ وہاں رکھی اشیا کو بھی گزند پہنچائی ہے۔پولیس کے مطابق اس نے 22 مارچ کو برمنگھم کی پانچ مساجد کو نقصان پہنچانے کے الزام ایک 34 سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔پولیس کے مطابق پیری بار سے تعلق رکھنے والے ایک 34 سالہ شخص نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے اور اسے ’مینٹل ہیلتھ ایکٹ‘ کے تحت تحویل میں رکھا گیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ’ٹیل ماما‘ کی ڈائریکٹر ایمان عطا کا کہنا ہے کہ نفرت انگیز جرائم میں اضافہ پریشان کن ہے۔ انھوں نے کہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کو جائز تصور کرتے ہیں اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں ایک ایسے منافرت انگیز نظریے کا سامنا ہے جس کی توجہ مسلمانوں پر ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اسٹنٹ چیف کانسٹیل مارک ہملٹن کا کہنا ہے کہ ہمیں تجربہ بتاتا ہے کرائسٹ چرچ جیسے بھیانک حملے برطانیہ میں کشیدگی میں اضافے کا سبب بنیں گے جس سے برطانیہ میں متاثرہ کمیونٹیز میں خوف کا احساس بڑھے گا اور نتیجتاًً ایسے واقعات کی رپورٹنگ میں بھی اضافہ ہو گا۔انھوں نے کہا کہ کسی کو نفرت انگیز جرائم کا سامنا نہیں کرنا چاہیے اور متاثرین کو چاہیے کہ اگرانھیں کسی ایسی صورتحال کا سامنا ہے تو وہ پولیس کو رپورٹ کریں۔