اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے الیکنش کمیشن کے وکیل سے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر فیصلہ کیا انتخابی نشان نہیں ہو گا تو پی ٹی آئی جماعت نہیں ہو گی؟
انھوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے اس فیصلے اور اس میٹنگ کا ریکارڈ دکھائیں۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ آپ نے بس انتخابی نشان نہ ہونے پر اس جماعت کو الیکشن سے باہر رکھا؟
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی لسٹ طلب کی تھی وہ نہیں ملی، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ سارا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ 81 آزادامیدواروں کے کاغذات نامزدگی مہیا کریں، میں تحریک انصاف کے فارم 66 بھی عدالت کو فراہم کر دوں گا۔‘
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہوا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے میجر پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا اور اب انتخابی نشان کا فیصلہ دینے والا بینچ آپ کو خود بتا رہا ہے آپ کی تشریح غلط تھی۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزاد بنایا، الیکشن لڑا، پھر جماعت کے ساتھ منسلک ہونا چاہ رہے تو الیکشن کمیشن مذاق اڑا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کیسے شامل ہو سکتے؟
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواستوں میں کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل خارج کر کے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جائے، کم سے کم ایک سیٹ جیتنے والی جماعت کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں، قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کیلئے لسٹ فراہم کرنا ہوتی ہے، سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ لیا نہ مخصوص نشستوں کیلئے لسٹ جمع کرائی۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر دی ہے، بیرسٹر گوہر علی خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سنی اتحاد کیس میں تحریک انصاف کو فریق بنایا جائے۔