کسی کے خلاف ثبوت ہی نہیں فوج اسے کیسے گرفتار کرسکتی ہے؟ چیف جسٹس، فوجی حکام اس طرح کرنے کا اختیار نہیں رکھتے : جسٹس منیب ، سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی

10:12 AM, 27 Jun, 2023

اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد کردی گئی ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی ہے۔ 

گذشتہ روز جسٹس منصور علی شاہ پر وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد انھوں نے خود کو سات رکنی بینچ سے علیحدہ کر لیا تھا اور ان درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کی۔جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری روسٹرم پر آئے اور کہا ہم نے بھی ایک درخواست کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے سپریم کورٹ بار نے بھی درخواست کی ہے۔ 

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ کیا آپ کی درخواست پر نمبر لگ گیا ہے؟ عابد زبیر ی نے جواب دیا کہ ابھی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب نمبر لگے تو پھر آپ کی درخواست دیکھیں گے۔ 

جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کل ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ 102 سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو رہا ہے جو اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔ 

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں اور ابھی تک کسی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو رہا ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر اعتبار ہے۔ 

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کا کہنا ہے کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائلز کے خلاف ہیں۔ فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن ٹو ڈی ون لگائی گئی ہے یا ٹو ڈی ٹو؟ انھوں نے رمارکس دیے کہ کل کے بعد اسی معاملے کی وضاحت ضروری ہو گئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تک سیکشن ٹو ڈی ٹو لگائی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سیکشن ٹو ڈی ون کا اطلاق بعد میں ہو سکتا ہے، آج کے دن تک ٹو ڈی ٹو کا ہی اطلاع ہوا ہے۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ برگیڈئر ریٹائرڈ ایف بی علی اور ڈسٹرکٹ بار کیس کے فیصلے، سویلین کا فورسز کے اندر تعلق سے متعلق کچھ ٹیسٹ آپلائی کرتا ہے۔ کیسے تعین ہو گا ملزمان کا عام عدالتوں میں ٹرائل ہو گا یا ملٹری کورٹس میں؟

عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔

جس ہر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا؟ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس پی آر کی گذشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے۔ انھوں نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟

اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق، الگ وجوہات تھیں۔  جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جنگی صورتحال ہوتو پھر ہی سویلنز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔دوسری صورت میں آئینی ترمیم کرنا پڑے گی۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ شفاف ٹرائل کی بھی شرائط ہیں۔
 

دورانِ سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صرف جنگ اور جنگی حالات میں کسی شخص کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ جب بنیادی حقوق معطل نہ ہوں تو سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے دلائل دیے کہ ہمارا آئین، ہمارے بنیادی حقوق، ہمارے قوانین سب ارتقائی مراحل سے گزر کر مختلف ہو چکے ہیں۔ اب ہمارے آئین میں آرٹیکل 10-A شامل ہے جس کو دیکھنا ضروری ہے۔ آئین کا یہ ارٹیکل فئیر ٹرائبل سے متعلق ہے۔

عزیز بھنڈاری کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل سٹرکچرکی بات کرتا ہے اور آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے۔

انھوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے۔ سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا اور کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔
 

ان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہو گی۔ وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں کہیں بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا۔انھوں نے مزید دلائل دیے کہ آرمی سپورٹس سمیت مختلف چیزوں میں شامل ہوتی ہے، اگر وہاں کچھ ہو جائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا؟

عزیر بھنڈاری نے عدالت میں سیکشن ٹو ڈی پڑھ کر سنایا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق تب ہوتا ہے جب کوئی ایسی چیز ہو جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے جرم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہونا چاہیے۔ انھوں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ دیکھانے کا کہا جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے عدالت کو بتایا کہ آفیشل آرمی ایکٹ کے مطابق کسی بھی ممنوعہ قرار دیے گئے علاقے پر حملہ یا استعمال جس سے دشمن کو فائدہ ہو جرم ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ممنوعہ علاقہ تو وہ ہونا ہے جہاں جنگی پلانز یا جنگی تنصیبات ہوں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ آرمی والے کی بات کرتے ہیں تو آرمی افسران کا سب سے اہم مورال ہوتا ہے۔ آرمی افسران کا مورال ڈاون کرنا بھی جرم ہے۔ اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہو گا۔

انھوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آرمی افسران اپنے ہائی مورال کی وجہ سے ہی ملک کی خاطر قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔
 

 جسٹس منیب اختر نے کہا کہ  اگر ایک شخص پر آرمی ایکٹ کے تحت چارج ہی نہیں تو اس کے خلاف فوج تحقیقات بھی کیسے کر سکتی ہے؟ 

جب کوئی آرمی ایکٹ کے دائرے میں آتا ہی نہیں تو اس شخص کے خلاف کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟  آرمی اتھارٹیز تو اس طرح کچھ بھی کرنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟  جسٹس منیب نے کہا کہ ایک مجسٹریٹ بھی تب تک ملزم کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا جب تک پولیس رپورٹ نا آئے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ  اب تک کے ریکارڈ کے مطابق تو گرفتار افراد کے خلاف کوئی چارج نہیں ہے۔چارج کے بغیر کیسے کسی کو فوجی تحویل میں رکھا جا سکتا ہے؟ 

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہوئی مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔ عزیر بھنڈاری کی جانب سے شاعر احمد فراز اور سیف الدین سیف کیس کے حوالے  دیے گئے۔ احمد فراز پر الزام لگاتھا مگر ان جو باضابطہ چارج نہیں کیا گیا۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے خلاف شواہد نا ہونے پر کارروائی کرنا تو مضحکہ خیز ہے۔ عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ  جو افراد غائب ہیں ان کے اہلخانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگی تھیں، امید ہے وہ والدین کیلئے تسلی بخش ہوں گی۔ 

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرمی رولز کے مطابق کسی شخص کو پہلے گرفتار کیا جاتا ہے پھر اس کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب بہت سے حقائق درخواست گزاروں کی جانب سے سامنے آئے ۔اگر آپ ان کے حقائق سے اتفاق نہیں کرتے تو عدالت کو آگاہ کریں،۔

جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے کہا آپ نے ڈیٹا بھی فراہم کرنا ہے ۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ  میں تمام ریکارڈ اور دستاویزات تحریری طور پر جمع کرا دوں گا ۔ میں نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 73 کے تحت لگے الزامات کی تفصیلات بھی جمع کرانی ہیں۔ 

جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کیا چارج فریم ہو گیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ  چارج فریم نہیں ہوا صرف الزامات کی بنیاد پر جو کارروائی ہوئی اس کی بات کر رہا ہوں۔ میں اپنی تحریری معروضات کے ساتھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی معلومات فراہم کروں گا۔ میں ایف آئی آر میں افیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہ ہونے پر بھی معاونت کروں گا ۔  ملزمان کی کسٹڈی لیتے وقت الزامات بھی فراہم کردیے تھے ۔  9 مئی کا واقعہ تھا جس کے بعد 15 دن لیے گئے پھر ملزمان کی حوالگی کا عمل ہوا ۔ 

چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت چارج کرنے کا طریقہ رولزمیں ہے؟ انھوں نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا آپ آج اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں گے؟جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں تحریری دلائل وقفہ کے بعد جمع کروا دوں گا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے معروضات کی تفصیل بھی مانگی تھی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت 102 ملزمان ملٹری تحویل میں ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تحویل میں موجود ملزمان کو گھر والوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت دی جائے گی اور والدین بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کو ہفتے میں ایک بار ملاقات کی اجازت ہو گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے کچھ جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ عام حالات سے کافی بہتر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کھانا محفوظ ہے یا نہیں اس کا ٹیسٹ تو نہیں ہوتا مگر وہ کھانا کھانے سے کسی کو کچھ ہوا تو ذمہ داری بھی شفٹ ہو جائے گی۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیوں خفیہ رکھا جا رہا کہ 102 ملزمان کون سے ہیں؟ سادہ سوال ہے کہ ہم کیوں حراست میں موجود 102 افراد کی لسٹ کو پبلک کر سکتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ابھی وہ زیر تفتیش ہیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پہلے یقینی بنائیں کہ زیر حراست افراد کی اپنے والدین سے بات ہو جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے۔ عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ ملزمان کی آج ہی اہلخانہ سے بات کروائیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فہرست پبلک کرنے کے حوالے سے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ صحت کی سہولیات سب زیر حراست ملزمان کو مل رہی ہیں، ڈاکٹرز موجود ہیں۔ صحافیوں اور وکلا کے حوالے سے کچھ واقعات ہوئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ریاض حنیف راہی سے کل بات بھی کی اور ان کی شکایات کا ازالہ ہو گا۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا موجودہ کیسز میں سزائے موت کا کوئی ایشو ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سزائے موت غیر ملکی رابطوں کی صورت میں ہو سکتی ہے۔
 

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کے استدعا مسترد کر دی۔ استدعا اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے باعث مسترد کی گئی ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ابھی ملزمان کے حوالے سے تحقیقات جاری  ہے۔ تحقیقات حتمی ہو بھی جائے تو پھر بھی ٹرائل میں وقت درکار ہو گا۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمری ٹرائل نہیں کیا جائے گا ۔ ٹرائل شروع ہو بھی گیا تو ملزمان کو وکلاء کرنے کی مہلت دی جائے گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کو چارج کی نقول فراہم کی جائیں ۔ ابھی ہم حکم امتناعی نہیں دے رہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ میں عید کے فوری بعد دستیاب ہوں گا، کوئی اہم پیش رفت ہوتی ہے تو مجھے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ  کیا موجودہ ملزمان میں سزائے موت کا ملزم ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ  سزائے موت صرف غیرملکی رابطوں کی صورت میں ہوسکتی ہے ۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ  ملزمان کا آج ہی اہلخانہ سے رابطہ کرا دیں۔ 


چیف جسٹس نے کہا کہ شہریوں سے متعلق سب سے پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے ۔حکومت عوام کے خدشات دور کرنے کیلئے تعاون کرے ۔حکومتی تعاون سے عوامی اعتماد بڑھتا ہے ۔دوسری صورت میں خدشات بڑھتے ہیں ۔ 

عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی ہے۔ 

مزیدخبریں