گزشتہ کچھ عرصے سے لاڑکانہ سے ایک نوجوان طالبعلم سہیل چانڈیو کے چند سوالات موصول ہو رہے تھے، مصروفیت کے سبب اس کے ساتھ مختصر سی ہوں ہاں ہوتی رہی لیکن سچی بات یہ ہے کہ متوجہ نہ ہو سکا۔ خیال دامن گیر ہوا کہ نوجوان کے سوالات میں جس قدر تاخیر واقع ہوئی ہے، اس کا تقاضا اور کفارہ یہی ہے کہ سب سوالات کو ایک ہی نشست میں خطاب میں کیا جائے۔سوال طالب علم پر واجب ہے اور اس کا جواب دینا استاد پر فرض ہے۔ اگر وہ سوال کا جواب نہ دے پائے تو اسے چاہیے کہ بلاتامل اپنے استاد کے پاس ریفر کر دے۔ میرا استاد وہ ہے جسے میں نے استاد مان لیا۔ میرا ماننا ہی اس کے استاد ہونے کی دلیل ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ زندگی میں تم ایک ایسا آدمی ضرور تلاش کر لینا جسے تم خود سے بہتر سمجھتے ہو، یعنی جس کی بات کے سامنے میں اپنی بات قربان کر سکوں گا وہی میرا استاد ہے۔ بصورتِ دیگر علمی گفتگو فقط ایک مشاورت ہے۔ مشاورت کرنے والا مشورہ ماننے کا پابند نہیں ہوتا لیکن استاد اور شاگرد کا تعلق شاگرد کو استاد کی بات ماننے کا پابند کرتا ہے۔ سہیل چانڈیو لکھتے ہیں:"میں ایک چھوٹا سا طالب علم ہوں۔ سوال بہت پوچھتا ہوں۔ایک چھوٹا سا سوال تھا، کیوں کہ علم کی پیاس رکھتا ہوں اور یہ واحد پیاس ہے جو مرتے دم تک نہیں ختم ہوگی۔
1۔علم کو حجاب اکبر کیوں کہا گیا ہے، علم کب حجاب اکبر بنتا ہے؟
2۔انسان وہ کون سے کام کرے جس سے وہ خود کو پہچان سکے؟
3 ۔اپنی بات میں تاثیر کیسے پیدا کریں؟
4۔ایک اچھے استاد کے پاس کیا ہونا چاہیے؟ کون سے صلاحیتیں، کون سے عادتیں؟
5جو زیادہ علم حاصل کرتا ہے، وہ پریشان کیوں ہو جاتا ہے، وہ خیالوں کی جنگ نہیں لڑ پاتا، بہت ہی بولنے لگتا ہے۔ خود کو سمجھدار اور دوسروں کو بیوقوف کیوں سمجھتا ہے؟اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
پہلا اور آخری سوال تو ایک ہی سوال ہے۔ اور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے، ہمارا پہلا سوال ہی ہمارا آخری سوال ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال ضرور پوچھنے چاہئیں۔ جب تک تسلیم میں داخل ہونے کا اذن نہ مل جائے، تحقیق ترک نہ ہونی چاہیے۔ تحقیق سوال پیش کرنے کے قرینے سے شروع ہوتی ہے۔ سوال پوچھنا ایک مستعد طالب علم کی نشانی ہے۔ایک اچھا سوال ایک اچھے طالب علم کی نشانی ہے۔ طالب علم تو بس طالب علم ہوتا ہے، چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔آج کا چھوٹا طالب علم ہی کل کا بڑا طالب علم بنتا ہے ، اور پھر وہی کل کلاں استاد بن جاتا ہے۔ طالب علم کا
مطلب ہے علم کا طالب ہونا۔ علم کی طلب دراصل ذاتِ باری تعالیٰ کی طلب ہے، اور یہ ایک بہت نیک اور عظیم طلب ہے۔
علم کو نْور بھی کہا گیا ہے اور حجابِ اکبر بھی۔ وہ علم نْور ہے جو نْور کا راستہ دکھاتا ہے۔ نْوری ذات کی طرف راہ دکھانے والا علم نور ہے۔ نور ہی نور کا راستہ دکھاتا ہے۔ اللہ نور السمٰوات والارض ہے۔ اللہ کی راہ دکھانے والے سب نور ہیں، یہ راستہ بھی نور ہے اور اس پر راہنمائی کرنے والے بھی علم کے نور سے متصف ہیں۔ یہاں یقیناً آپ علم اور تعلیم میں فرق کر سکتے ہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے فرمایا ہے کہ تعلیم ضرورت کا علم ہے، ضرورت کا علم اور چیز ہے، علم کی ضرورت اور چیز! لازم نہیں کہ تعلیم یافتہ فیض یافتہ بھی ہے۔ علم کا پہلا باب یہ ہے کہ انسان اپنی حدود اور قیود کو پہچان لے۔ اپنی حد اور اپنے قد میں رہنے والا کبھی خود کو سمجھدار اور دوسروں کو نا سمجھ نہیں سمجھتا۔ انسان کو زیادہ علم پریشان نہیں کرتا، بلکہ اسے بدعلمی پریشان کرتی ہے۔ بدعلمی یہ ہے کہ انسان علم کے مرکز و منبع کی طرف پشت کر لے اور سایوں کو حقیقت سمجھتا رہے۔ بدعلمی ہی حجاب اکبر ہوا ہوتی ہے۔ راہِ عمل میں علم معاون ہوتا ہے، بدعلمی سدِ راہ ہوتی ہے۔ بدعلمی میں مبتلا انسان نہ صرف یہ کہ خود فکری مغالطوں میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ علم کے نام پر دوسروں کو بھی فکری مغالطوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ تطہیر فکر سے محروم ہوتا ہے۔ اس کی فکر صراطِ مستقیم پر نہیں ہوتی۔ وہ ایک پیچ سے نکلتا ہے تو کسی دوسرے فکری پْرپیچ میں الجھ جاتا ہے ، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کے لیے عمل کی راہ مسدود ومحدود ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ بدعلمی کا شکار بدعملی کی طرف نکل جاتا ہے۔ صاف سلیٹ پر لکھنا آسان ہوتا ہے، پہلے سے لکھے کو مٹانا کارِ دشوار ہوا کرتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے "بے علمی بدعلمی سے بدرجہا بہتر ہے" ۔
تعلیم و ہنر حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ آج کی تعلیم دراصل ہنر اور ٹیکنالوجی کے نصاب ہیں۔ ہم نے اپنے زمانے میں گزر بسر کرنا ہے۔تعلیم زمانے کا علم ہے، اس لیے اس کا حصول بھی ضروری ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہم خود کو معاشرے کا ایک فعال رکن بنانے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں۔ زمانے میں زندگی گزارنے کی معلومات کو ہم کس انداز سے استعمال کرتے ہیں، اس کے لیے ہمیں علم کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر باطن نورِ علم سے روشن نہ ہو گا تو عین ممکن ہے ہم ان معلومات کو اپنے ذاتی مفاد اور دوسروں کے استحصال کے لیے استعمال کر لیں۔ یہاں علم تزکیہِ نفس کے مترادف ہو جاتا ہے۔ علم ظاہر و باطن کی روشنی ہے۔ علم ہمیں خود شناس کرتا ہے۔ خود شناسی کے لیے تعلیم سے کہیں بڑھ کر ہمیں علم کی ضرورت ہوتی ہے— تاکہ ہمارا باطن روشن ہو، اور یہ روشنی ہمیں ہماری خامیوں پر مطلع کرے۔ یہاں سے آپ کے دوسرے سوال کا عقدہ بھی کھلنا شروع ہو جاتا ہے کہ "انسان کیا عمل کرے کہ وہ خود کو پہچان لے؟ ۔"انسان بس یہ کرے کہ وہ اپنی خامیاں نوٹ کرتا جائے اور دوسروں کی خوبیاں گنتا چلا جائے۔ اس طریق پر وہ خوش شناسی اور خدا شناسی کی منزلوں کا مسافر ہو سکتا ہے۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں انسانوں کی نسبت مثبت سوچ اپنائے رکھے۔ جیسا وہ لوگوں کے بارے میں سوچے گا، ویسا ہی ہوتا چلا جائے گا۔ انسان کے اندر اس کے خالق نے اتنی خوبیاں پیدا کی ہیں کہ وہ شمار میں نہیں آسکتیں۔ ایک سچا طالب وہی ہے جسے آس پاس انسانوں کی خوبیاں شمار کرنے سے ہی فرصت نہ ہو، چہ جائکہ وہ کسی کی خامی تلاش کرے اور بیان کرے۔
نوجوان کا یہ سوال کہ"باتوں میں تاثیر کیسے پیدا ہوتی ہے؟" دراصل تاثیر اخلاص سے پیدا ہوتی ہے۔ باتوں میں تاثیر کسی مہارت، تعلیم یا پریکٹس سے نہیں پیدا ہوتی۔ بات دینے والا بات دیتا ہے تو تاثیر بھی ساتھ دیتا ہے۔ اْس ذات کو جب اپنے بندے کا اخلاص پسند آ جاتا ہے تو اس بندے کی باتوں میں تاثیر پیداکر دی جاتی ہے۔ انسان کی باتوں میں تاثیر بھی وہی پیدا کرتا ہے جو انسان کو پیدا کرتا ہے۔ متاثر کرنا اور چیز ہے اور تاثیر کا ہونا اور چیز۔ شوبز کے لوگ بھی اکثرلوگوں کو متاثر کرتے رہتے ہیں، لیکن پرتاثیر ہونا ایک عطیہ خداوندی ہے۔ تاثیر کا مطلب یہ ہے کہ بات دل میں ایسے اتر جائے کہ اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ تاثیر ذہن سے زیادہ دل پر اثر کرتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوجوان درس وتدریس کے شعبے سے بھی منسلک ہے۔ اس لیے استاد کے حوالے سے پوچھ رہا ہے کہ "استاد کے پاس کون سی صلاحیتیں اور عادتیں ہونی چاہئیں" ایک استاد کو سب سے پہلے اپنے مضمون میں کماحقہ تعلیمی مہارت چاہیے ہوتی ہے۔ تعلیم ایک ایسا دسترخوان ہے جس پر ایک اچھا استاد چپکے سے علم کے خوان چن دیتا ہے۔ یعنی شاگرد اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے جائے اور وہ اسے غیر محسوس طریقے سے علم کی خوشبو سے معطر کردے۔ یہاں علم تربیتِ اخلاق کے مترادف ہو جاتا ہے۔— اور یہ علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں معلمِ اخلاقؐ کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔ شہرعلمؐ کا راستہ —براستہ درِ علمؓ طے کرنا ہوتا ہے!!
معلمی پیشہ پیغمبری ہے۔ استاد کو چاہیے کہ اپنے منصب کی قدر کرے۔ اسے کسی پے رول کے عوض رول نہ دے۔ استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں پر کبھی غصہ نہ کرے۔ غصہ ایک دوری پیدا کر دے گا جبکہ استاد کے ذمے قربت کا علم ہے۔ استاد اپنے شاگردوں میں کوئی غیر منصفانہ فیصلہ نہ کرے۔میرٹ کے سوا کسی وجہ سے کسی کو ممتاز نہ کرے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان رشتہ اس وجہ سے لازوال ہوتا ہے کہ وہ اپنے قول و کردار سے لازول اقدار کا مبلغ ہوتا ہے۔