امریکہ، روس یا کسی دوسری ریاست سے دوستی کا دعویٰ سوائے حماقت کے اور کچھ نہیںکہ ریاستوں کے درمیان دوستیاں نہیں مفادات ہوتے ہیں۔ مشترکہ مفادات بدترین مخالفوں کو بھی یک جان کر دیتے ہیں لیکن اپنی خارجی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ریاست پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھ کر دوستیوں اور دشمنیوں کے معیارات مقرر کرنے کے بجائے ہمیشہ ذاتی مفادات کو ہی مدنظر رکھا گیا ہے۔ مجھے تو اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پر ایک ہی شخص حکومت کر رہا ہے اور نہ جانے کب سے اقتدار کا بے لگام گھوڑا اُس کے قابو میں ہے۔ صرف چہرے بدلے، نظریات اور رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکہ سے دوستی کی بنیاد لیاقت علی خان نے رکھی اور پھر لیاقت علی خان کو دنیا سے بھیج دیا گیا۔ اور پھر ہم وائٹ ہاؤس کی سیاہ دلدل میں اترتے چلے گئے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ امریکہ بغیر کسی مفادکے پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعویٰ کیوں کرے گا؟ اس کے بعد سوچنے والی بات یہ ہو گی کہ اُس کے مفادات کیا ہیں؟ اور اگر اُس کے مفادات پورے ہو رہے ہیں توکیا اُس کے بدلے پاکستان کے مفادات پورے کیے جارہے ہیں یا وہی ایک شخص جو چہرے بدل بدل کر ریاست ِپاکستان پر قابض ہورہا ہے صرف اُسی کے مفادات پورے ہو رہے ہیں۔ امریکہ نے ہمیشہ جو ہمیں دیا اُس کا ڈھنڈورا پوری دنیا میں پیٹا گیا لیکن کیا کوئی مائی کا لعل وہ فہرست بھی فراہم کر سکتا ہے کہ ہم نے امریکہ کو کیا کچھ دیا؟ شاید وہ فہرست ہم کبھی شائع نہ کر سکیں کیوں کہ اُس میں تو ہماری عزت و ناموس بھی شامل ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے سے لے کر دہشت گردی تک اور لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت تک سب کچھ اگر امریکی ایما پر نہیں ہوا تو اُس کے علم میں لاکر ضرورکیا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگالیوں کے ساتھ مغربی پاکستانیوں کا سلوک بھی بہتر نہیں تھا لیکن کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ہمارے یارِ غار نے 1971 ء کی جنگ میں نہ صرف ہمارا ساتھ دینے سے اجتناب برتا بلکہ کمک کے نام پر روانہ ہونے والے اُس کے بحری بیڑے ابھی تک ہماری امداد کو نہیں پہنچے البتہ افغانستان اور عراق کو ملیامیٹ کرنے کے لیے امریکی بحریہ سرگرم ِ عمل ہے۔ امریکی صدر، امریکی عدلیہ اور پینٹا گون کی تثلیث دنیا بھر کے انسانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہے اُسے تاریخ کا جانبدار سے جانبدار
مورخ بھی درندگی اوروحشت ہی لکھے گا۔ مجھے سفید گھرسے کوئی گلہ یا شکایت نہیں کیونکہ میں دشمن سے رحم کی توقع رکھنے والا شخص نہیں۔ مجھے تو افسوس صرف اُن اذہان پر ہے جو ریاست پاکستان کے والی وارث ہیں،جنہوں نے پاکستان کی خارجی اور داخلی پالیسی بنانا ہوتی ہے۔ انہوں نے آج تک کون سا تیر مارا ہے؟ کون سافیصلہ ایسا کیا ہے جو ریاست پاکستان کے مفاد میں ہوا اور اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ بہت کچھ ہوا ہے تو میں ثبوت کیلئے کسی ایک شخص کا دورِ حکومت نہیں آج کا پاکستان اُس کے سامنے پیش کیے دیتا ہوں۔ جس کے حالات راتوں رات خراب نہیں ہوئے بلکہ یہ تو ایک بُرے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے جسے کسی نے روکا نہیں، جسے کسی صاحب ِعقل نے عوامی خواہشات کی تکمیل میں مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کی۔ امریکہ اور برطانیہ کورفاعی ریاستیں سمجھنے والوں کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان قاتل اور ڈکیت ریاستوں نے دنیا بھر کے انسانوں کا قتل عام کرنے اور انہیں لوٹنے کے بعد اپنے ویلے بے فکرے نوجوانوں کو بیکاری الاؤنس دیا ہے۔ تندرست اور توانا نوجوانوں کو تو روزگار فراہم کرنا چاہیے نہ کہ انہیں گھروں میں بیٹھا کر پیسے دیئے جائیں۔ جو ریاستیں ایسا کر رہی ہیں وہ یا تو طاقت کے بل بوتے پر کمزور ریاستوں کے وسائل لوٹنے کے بعد ایسا کرنے کے قابل ہوئی ہیں یا پھر دوسری ریاستیں جنہوں نے طاقت کا راستہ اختیار نہیں کیا انہوں نے بے رحم سرمایہ داری نظام کو دنیا کا آخری نظام قرار دے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اور اُن کی اس لوٹ مار میں مقامی سرمایہ دار جسے قومی سرمایہ دار یا قومی سرمایہ کار کا نام دیا گیا ہے مکمل طور پر شامل ہیں۔کبھی ایک کمپنی(ایسٹ انڈیا کمپنی) دنیا بھر کے انسانوں کو لوٹتی تھی لیکن اب جدید ہتھیاروں کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں رہا سو بے رحم قاتلوں نے مل کر کمپنیا ں بنا لی ہیں ۔جس کے نتیجہ میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر انتہاپسندی ایک مذہب ہے تو مجھے یہ بھی لکھنے دیں کہ سرمایہ داری بھی ایک مذہب ہے ایک عقیدہ ہے جو سب سے قدیم اور سب سے بے رحم ہے۔ جس کے پیروکار دنیا کے ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں ۔مختلف المذاہب ہونے کے باوجود ان کا قبلہ (سرمایہ) ایک ہے، بے رحمانہ رویہ ایک ہے، لوٹ مار کے طریقے ایک دوسرے سے نہ صرف ملتے جلتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر لوٹ مارکے نت نئے اور جدید طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ ریسرچ پرکروڑوں ڈالر خرچ کرنے والی کمپنیاں بعدازاں اربوں ڈالر محنت کشوں کی ہڈیوں کے گودے سے نکال لے جاتی ہیں اور ایسا کرنے کی اجازت انہیں دنیاکی ہر ریاست دیتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں اگر اس بات کو یوں کیا جائے کہ ہر ریاست نے ڈبلیوٹی او، گلوبلائزشن،نیوورلڈ آرڈر ،تہذیبوں کا تصادم ، تاریخ کا خاتمہ اور مذہبی تہذیب کے خاتمے جیسے مشکل اور پیچیدہ فلسفوں میں الجھا رکھا ہے۔ دنیا کو گلوبلائز کرنے کا خواب سب سے پہلے معلوم تاریخ میں یونان کے عظیم فلاسفر دیوجان کلبی نے دیکھا تھا ۔جس نے اپنے آپ کو عالمی شہری کہا اور یونانیوں کے دماغوں میں دنیا کو ایک کرنے کے لیے سکندر پیدا کیا ۔یہ وہی دیو جان کلبی ہے جس نے سکندر کو کہا تھا کہ سامنے سے ہٹ جائو تم نے تو آتے ہی وہ روشنی روک لی ہے جو فطرت مجھے عطا کررہی تھی اور جس پر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ نگاہ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے۔ مگر آج تک دنیا کو گلوبلائز کرنے کا خواب کسی کا پورا نہیں ہو سکا گو کہ ایسی ریاستیں بھی معرض وجود میں آئیں جن کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن وہ خود نہ صرف غروب ہو گئیں بلکہ دوسری ریاستوں کی طفیلی ریاست بن کر رہ گئی ۔ہمیں برطانیہ سے سبق سیکھتے ہوئے امریکہ اور امریکی ایجنٹوکریسی سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیے اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے ۔
میں نے 2007 ء میں ایک مضمون مہا بحران (Ultra-Crises) کے عنوان سے لکھا تھا جس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ ہم ایک مہا بحران کی طرف جا رہے ہیں اور مہا بحران بارے میرا نظریہ یہ ہے کہ بہت سے بحران مل کر ایک بہت بڑے اور ناقابلِ حل بحران کو جنم دیتے ہیں۔آج اگر آپ پاکستان کی حالت دیکھیں تو آپ کو لاتعداد بحران نظر آئیں گے جن میں لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم کی عدم دستیابی، صحت کی سہولتوں کا نہ ہونا، حکومت اور عدلیہ کی محاذ آرائی، عدم تخفظ، بے یقینی، قیادت کا فقدان، دہشت گردی، بیرونی مداخلت، مذہبی انتہا پسندی، سٹریٹ کرائم اور پاکستان کا مجروح ہوتا ہوا وقار۔ یہ سب اور اِن کے ذیلی بحران اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ان سب بحرانوں کے بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثرین ورکنگ اور مڈل کلاس ہے، خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے تو ہر طرح کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان متاثرین کی تعدادمیں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے اور ہم تیزی سے اُس مقام عبرت کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں قتل کرنے والا اور قتل ہونے والا دونوں لاعلم ہوتے ہیں کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا یا اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ (جاری ہے)