اسلام آباد: ہائی کورٹ نے اسامہ ستی کیس میں دہشت گردی کی دفعات بحال کر دیں۔ اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالت نے مقدمے سے دہشتگردی کی دفعات ختم کر دی تھیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس بابر ستار نے بروز منگل 27 جولائی کو مقتول اسامہ ستّی کے والد کی اپیل پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
عدالت کے روبرو درخواست گزار کے وکیل غلام افضل راجہ کا کہنا تھا کہ اسامہ ستی کو ملزمان کی جانب سے 17 گولیاں ماری گئیں اور پولیس اہلکاروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت یہ دہشت گردی کا کیس ہی بنتا ہے۔ جس پر عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات کو بحال کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ملزمان کی درخواست پر دہشت گردی کی دفعات ختم کردیں تھیں۔ جس کے بعد فیصلے کیخلاف اسامہ ستی کے والد نے دہشت گردی کی دفعات حذف کرنے کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے اسامہ ستی نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوج (نسٹ) سے جی 10 اسلام آباد تک آٹھ کلومیٹر تک گاڑی دوڑائی جس کی وجہ سے پولیس کو شک پیدا ہوا اور انہوں نے اسے ڈاکو سمجھتے ہوئے گاڑی پر فائرنگ کر دی جس سے اسامہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔