آج سے کم و بیش پچیس تیس برس پہلے شہر لاہور کے علمی، ادبی اور ثقافتی منظر نامے پر کیسا کیسا بے مثال شخص اپنی فکر و فرزانگی کے موتی لٹاتا تھا۔ مظفر علی سید، اشفاق احمد، خلیل الرحمٰن داؤدی، مرزا محمد منور، احمد ندیم قاسمی، میرزا ادیب، منیر نیازی، انجم رومانی، محمد کاظم، عارف عبدالمتین، طفیل ہوشیار پوری، عبدالعزیز خالد، حافظ افضل فقیر، حفیظ تائب، شہزاد احمد، وزیر آغا، نعیم صدیقی، ڈاکٹر جاوید اقبال، وحید قریشی، سراج منیر اور کئی دوسرے۔ فکر و فرہنگ کی ایک روشنی بانٹتی کہکشاں تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ گویا سب: ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ڈوب گئے اور بقول دانش، زمیں اوڑھ کے سو گئے۔ انہی ارباب ِ دانش و بینش میں ایک فقیر منش، خود آگاہ اور انقلابی فکر رکھنے والا گلیم پوش دانشور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی بھی تھا جس نے مغربی فلسفیوں خصوصاً کانٹ کے افکار کو گھول کے پی لیا تھا مگر ان فلاسفہ میں سے کسی سے ایک لمحے کو بھی مرعوب نہ ہوا تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر برہان احمد کلیتہً اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ/ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف!
۱۹۰۵ ء میں امروہہ میں پیدا ہونے والے اس ممتاز عالم نے اپنی زندگی کے تقریباً پچاس برس اسی شہرِ لاہور میں بسر کیے اور آج سے چھبیس برس پہلے اسی ماہ جولائی کی ۱۴ تاریخ کو ملکِ بقا کا رخ کیا اور قبرستان میانی صاحب میں آسودہ خاک ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب یوں تو ادب، شاعری، علم کلام، منطق، مذہبیات کسی بھی میدان میں بند نہ تھے لیکن ان کا خصوصی مرکزِ نگاہ دینِ اسلام تھا۔ تصوف سے بھی ان کی دلچسپی اسلام ہی کے باعث تھی۔ اسلام اور تصوف میں انہوں نے جن ہمہ گیر اور حرکی عناصر کا کھوج لگایا، اسی کا پرچار ساری عمر اپنی تحریر و تقریر میں کرتے رہے۔ ان کی حیثیت ایک ایسے بے مثال فلسفی کی تھی جو نپے تلے انداز میں گہرے منطقی اور ایقانی اسلوب میں بات کرتے ہیں۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے ڈاکٹر برہان احمد فاروقی جیسے نامور عالم سے حسب توفیق فیض اندوزی کی۔
ڈاکٹر صاحب کا حصولِ علم کا ابتدائی زمانہ ملتان اور بعد ازاں لاہور میں گزرا۔ لاہور میں انہیں مجبوراً ایک دیو سماجی کالج میں داخلہ ملا جہاں روزانہ ایک گھنٹہ خدا کے وجود کے انکار پر لیکچر دیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب خود کہا کرتے تھے کہ یہ لیکچر چونکہ لازمی تھا لہٰذا اس سے مفر نہیں تھا مگر میرا اس وقت بھی موقف یہ تھا کہ اگر فلسفے میں فلسفی، طب میں طبیب، اور ادب میں شاعر و ادیب کی بات مستند ہوتی ہے تو مذہب میں سوائے صاحبِ مذہب کے کسی کی بات بھی مستند نہیں مانی جا سکتی۔ یہی وہ ایقان اور سلامتیِ فکر تھی جو ساری عمر ان کے وجود کا حصہ رہی۔
فاروقی صاحب نے آج سے کم و بیش پچاسی برس پہلے حضرتِ مجدد الف ثانیؒ کے نظریہ توحید پر نامور فلسفی ڈاکٹر ظفر الحسن کے زیر نگرانی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ یہ مقالہ اقبال کے ایما پر لکھا گیا تھا۔ اس مقالے کی اشاعتِ اول پر اسّی برس ہو گئے لیکن یہ مجدد صاحب کے نظریہ وحدت الشہود اور ان کی دینی خدمات کے ضمن میں آج بھی ایک نہایت معتبر حوالے کی حیثیت رکھتا ہے اور آج کی دانش گاہوں کے ارباب اختیار کے لیے ایک تازیانہ ہے جو ساقط الاعتبار تحقیقی کاموں پر بھی دھڑا دھڑ ڈگریاں بانٹ رہے اور دام کھرے کر رہے ہیں اور ان کو بڑھاوا دینے کے لیے ہائیر ایجوکیشن جیسا مغربی استعمار کا غلام ادارہ شب و روز سرگرم عمل ہے اور اعداد وشمار کی شعبدہ کاریوں میں مگن ہے۔ ڈاکٹر برہان صاحب کے مذکورہ مقالے کے ضمن میں یہ بات قارئین کے لیے شاید باعثِ حیرت ہو گی کہ جب انہیں یہ
موضوع دیا گیا تو انہوں نے اس پر کام کرنے سے انکار کر دیا۔ فاضل نگرانِ مقالہ نے وجہ پوچھی تو فاروقی صاحب نے جواباً کہا کہ مجدد صاحب نے وحدت الوجود کے تصور کی نفی کشف اور وجدان کی بنیاد پر کی تھی اور چونکہ میں ذاتی کشف کا کوئی تجربہ نہیں رکھتا اس لیے میں اس موضوع سے انصاف نہیں کر سکتا۔ اس پر ڈاکٹر ظفرالحسن نے مجدد صاحب کے اخلاف میں سے پیر مصباح الدین رامپوری سے درخواست کی کہ وہ علیگڑھ آکر ان کے شاگرد کی تربیت کریں۔ چنانچہ وہ آئے، علیگڑھ میں اقامت پذیر ہوئے، ایک مدت تک فاروقی صاحب ان کے زیرتربیت رہے اور اس عرصے کے تمام اخراجات ان کے نگران ڈاکٹر ظفرالحسن نے برداشت کیے: پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ!
ڈاکٹر فاروقی کی حضرتِ مجدد پر مقالے کی غیر معمولی قدر و قیمت کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ یہ مقالہ (جو انگریزی میں لکھا گیا تھا)، اختصار اور جامعیت کی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ کْل ایک سو سات صفحات پر مشتمل اس مقالے میں ڈاکٹر صاحب نے واقعی وہ کام کیا ہے جسے دریا کو کوزے میں بند کرنا کہتے ہیں۔ جہاں اس مقالے سے حضرتِ مجددؒ کے تصورِ توحید اور ان کی بے باکانہ مساعی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے وہاں اس امر کا بھی پتا چلتا ہے کہ مجدد صاحب کے مابعد کے اہلِ علم و عرفان میں بھی ایک کثیر تعداد ایسے حضرات کی تھی جنہوں نے ابنِ عربی کے نظریہ وحدت الوجود کی مخالفت اور مجدد صاحب کے موقف کی تائید کی۔ اس ضمن میں میر ناصر عندلیب، میر درد، مولوی غلام یحییٰ اور سید احمد بریلوی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ چونکہ حضرت شاہ ولی اللہ نے مجدد صاحب کے موقف کو صرف لفظی نزاع قرار دے کر ابن عربی اور مجدد صاحب کے موقف کی تطبیق کی تھی، اس لیے مولوی غلام یحییٰ کا خیال تھا کہ دونوں تصورات میں تطبیق ممکن ہی نہیں کیوں کہ وحد ت الوجود مخلوق اور خالق کی کلی مماثلت پر مبنی ہے جبکہ نظریہ وحدت الشہود خالق و مخلوق کے مطلق فرق پر اپنی بنیاد رکھتا ہے۔ اسی فرق کی ایک بڑی دلچسپ توضیح سید احمد بریلوی نے اپنی کتاب "صراطِ مستقیم" میں کی اور مجدد صاحب کے موقف کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ کا عارف اللہ کی محبت میں گم ہو کر اپنے وجود کو بھول جاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آگ کی بھٹی میں لوہے کا ٹکڑا ڈالا جائے تو کچھ دیر بعد خود آگ کا روپ دھار لیتا ہے اور اس میں آگ کی ساری خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر اس حالت میں لوہے کے ٹکڑے کو زبان مل جاتی تو وہ یقیناً اپنے آپ کو آگ ہی قرار دیتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ وہ اپنی اصل میں لوہا ہی ہے۔ اسے بھٹّی سے نکال لیں، ٹھنڈا ہو کر وہ اپنی اصل شکل میں آجائے گا۔ گویا وحدتِ وجود کی نفی ہو جائے گی۔
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے اپنی کتاب میں اس تاریخی پس منظر کا بھی اجمالاًذکر کر دیا ہے جس کے نتیجے میں مجدد صاحب کو باقاعدہ قلمی جہاد کرنا پڑا۔ کیا اس ضمن میں مغل بادشاہ اکبر کے نام نہاد دینِ الٰہی کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے جس کے باعث برعظیم کے مسلمان ایک شدید ذہنی اضطراب کا شکار ہو گئے تھے۔ اکبر نے کلمہ توحید تک بدل ڈالا تھا۔ اس کے حضور سجدہ تعظیمی لازمی قرار پایا تھا۔ شراب اور خنزیر کا گوشت حلال قرار دے دیے گئے تھے۔ جزیے پر پابندی لگا دی گئی تھی اور گائے کا ذبیحہ ممنوع قرار پایا تھا۔ کتوں اور خنزیروں کی پرورش نے زور پکڑا اور انہیں مظاہر حق قرار دیا گیا۔ صوم صلوٰۃ اور حج بھی اکبری پابندیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اسلامی مہینوں کے بجائے الٰہی مہینے اور سال گھڑے گئے اور یہ خیال عام کیا جانے لگا کہ ہزار برس پورے ہو جانے کے بعد اسلام خاکم بدہن کارآمد نہیں رہا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ نے اس صورتِ حال کو بدلنا چاہا۔ اکبر کے رحلت کر جانے کے بعد جہانگیر برسرِ اقتدار آیا اور اسی ڈگر پر چلنے لگا۔ تب تک مجدد صاحب اپنے ایمان افروز مکتوبات کے ذریعے برعظیم کے طول و عرض میں قرآن و سنت کی روشنی پھیلانے لگے تھے اور حکومتِ وقت کی بدعات کو طشت از بام کر رہے تھے۔ جہانگیر نے انہیں قید کر ڈالا مگر بقول اقبال: سر جھک نہ سکا جس کا جہانگیر کے آگے/ جس کے نَفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار/ وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں / اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار۔ بالآخر بادشاہ حضرت ِ مجدد کو رہا کرنے پر مجبور ہوا اور انہوں نے بادشاہ ِوقت کو شریعت کے آگے سرخم کرا کے دم لیا۔ یہ ہیں فقر کے معجزات!
یہاں ایک نکتہ قابل توجہ ہے کہ صوفیا کا ہمیشہ اس امر پر اصرار رہا کہ حالتِ صحو، حالتِ سکر پر برتری رکھتی ہے۔ فاروقی صاحب بھی اسی خیال کے مؤید ہیں۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی کتاب میں محمود غزنوی کا واقعہ درج کیا ہے جب اس نے مشہور صوفی اور بایزیدِ بسطامی کے مرید ابولحسن خرقانی سے ملنے کی خواہش کے اظہار کے لیے اپنا کارندہ بھیجا اور اس نے حاکم ِ وقت کی اطاعت والی آیت پڑھی۔ ابوالحسن خرقانی نے کہا کہ اولوالامر (حاکم وقت) تو کس شمار میں ہے اور میں اسے کیوں ملوں گا، میں تو ابھی "اطیعو االلہ" کے مرحلے ہی سے باہر نہیں آیا۔ گویا یہ کہا کہ جب سْکر کی حالت سے نکلوں گا تو اگلے مرحلوں تک پہنچوں گا۔ پھر دیکھا جائے گا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اگرچہ مملکتِ پاکستان کو خارجی وجود تو بہت بعد میں ملا، مگر اس میں حضرتِ مجدد کے نظریہ "تثنیتہ الوجود" کا اپنا ایک روشن کردار ہے!۔