ہفتہ عشرہ قبل "نئی بات"کے گروپ ایڈیٹر، سینئر صحافی اور کالم نگار جناب عطاء الرحمٰن جو ایک معتبر، مستند اور بزرگ اخبار نویس کے طور پر لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں کا" قربانی" کے عنوان سے "روزنامہ نئی بات" میں کالم چھپا۔ اس میں انہوں نے پچھلی صدی کے پچاس، ساٹھ اور ستر کے عشروں کے لاہور اور لاہور کی کچھ بستیوں اور آبادیوں جن میں اچھرہ کی پرانی بستی نمایاں ہے کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ ان میں بسنے والی بعض نیک نام اور اپنے اپنے شعبوں میں شہرت دوام حاصل کرنے والی بزرگ ہستیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس دور میں عیدالاضحی کے موقع پر سنتِ ابراہیمی ؑ کی تقلید میں قربانی اور ذبح عظیم کے لیے خریدے جانے والے بکروں، مینڈھوں، بیلوں اور اُونٹوں کی ذوق شوق سے خریداری اور ان کی کم قیمتوں اور اب ان جانوروں کی آسمان پر پہنچی ہوئی قیمتوں کا جائزہ بھی لیا ہے۔ انہوں نے اپنے بزرگوں کے بحری جہاز کے سفر کے ذریعے حج پر جانے اور وہاں اپنے ہاتھوں سے قربانی کرنے اور قربانی کے گوشت کی بدوؤں میں تقسیم کا ذکر کیا ہے تو اس کے ساتھ انہوں نے 2009ء میں اپنی اہلیہ محترمہ اور پھر اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ حج کے سفر پر جانے اور وہاں اپنے قربانی کے جانوروں کے گوشت تک رسائی نہ ہونے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اچھرہ کی بستی کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ اس دور میں یہ بستی ایک طرف لاہور میں بہنے والی روایتی نہر سے گھری ہوئی تھی تو اس کے ساتھ سر سبز اور شاداب کھیت پھیلے ہوتے تھے جن میں روایتی رہٹ کے ذریعے آبپاشی کی جاتی تھی۔ انہوں نے اچھرہ کے ساتھ بہنے والی نہر کے کنارے پر فیروز پور روڈپر مفتی محمد حسنؒکے قائم کردہ ادارہ جامعہ اشرفیہ کی تعمیر اور اچھرہ کے ساتھ رحمٰن پورہ کی بستی کا بھی ذکر کیا ہے تو ان بستیوں میں بسنے والی نامور ہستیوں جماعتِ اسلامی کے امیر سید ابو اعلیٰ مودودی ؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا نعیم صدیقی اور مولانا محمد عمر اچھروی کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولے ہیں۔ یقینا یہ سب کچھ بہت خوبصورت، دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔ سچی بات ہے میں نے اس کو جسے جناب عطاالرحمٰن نے داستان کا نام دیا ہے اور اس کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ پتہ نہیں کوئی اسے پڑھے گا بھی یا نہیں، ایک بار نہیں کئی بار پڑھا ہے۔ ہر بار یہ داستان مجھے دلچسپ ہی نہیں لگی بلکہ اس کی وجہ سے پچاس پچپن سال قبل کے لاہور کی یادیں بھی میرے ذہن میں تازہ ہو گئی ہیں۔
میں اسے اپنی خوش نصیبی ہی گردانتا ہوں کہ 1966ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد 1967ء میں ایک سال کے لیے مجھے بی ایڈ کلاس کے لیے تربیت اساتذہ کے اس وقت کے نامور ادارے سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔ سینٹرل ٹریننگ کالج جسے آج کل غالباً کالج آ ف ایجوکیشن کہا جاتا ہے، لاہور لوئر مال پر سینٹرل
ماڈل ہائی سکول کے عقب اور داتا دربار اور ضلع کچہری کے پہلو میں واقع ہے۔ یہاں مجھے داخلہ ملا تو مشہور ماہرِ تعلیم پروفیسر اشفاق علی خان مرحوم پرنسپل تھے۔ کچھ ہی عرصے بعد گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور) کے نامور اور طلباء میں انتہائی ہر دل عزیز پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر نذیر احمد ریٹائرڈ ہوئے تو پروفیسر اشفاق علی خان کا بطورِ پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور میں تبادلہ ہو گیا اور حیدر آباد سندھ سے پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی ہمارے پرنسپل بن کر آ گئے۔ یاد رہے کہ 1967-1968ء میں پاکستان ابھی دو لخت نہیں ہوا تھا اور ون یونٹ کے تحت چار صوبوں والا موجودہ پاکستان ایک ہی صوبہ مغربی پاکستان کہلاتا تھا۔ ستمبر 1967ء میں سینٹرل ٹریننگ کالج میں مجھے داخلے کے بعد مجھے یاد ہے میرا رول نمبر 37اور سیکشن Eتھا۔ میں نے تدریسِ انگریزی کے لازمی مضمون کے ساتھ تدریسِ اُردو اور تدریسِ معاشرتی علوم کے اختیاری مضامین رکھے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد میں نے تدریسِ اُردو کی جگہ تدریسِ جغرافیہ کا مضمون لے لیا تو اس پر شعبہ اُردو کے معروف استاد پروفیسر اسحاق جلال پوری جو بعد میں اسلام آباد وفاقی وزارتِ تعلیم کے شعبہ نصاب اور نصابی کتب میں متعین ہوئے، مجھ سے خفا بھی ہوئے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔
سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں ستمبر 1967 تا جون 1968ء تک تقریباً دس ماہ کے عرصے کی یادوں کو کریدوں تو بہت ساری باتیں اور بھولے بسرے واقعات اور دھندلے نقش ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں۔ سینٹرل ٹریننگ کالج کا ہاسٹل بہت بڑا اور دو منزلہ تھا۔ اس میں میرا کمرہ 35نمبر تھا جس میں میرے سکول کے میٹرک کے ہم جماعت اور پرانے ساتھی چوہدری محمد افضل سلیم مرحوم روم میٹ تھے۔ چوہدری محمد افضل سلیم بعد میں گورنمنٹ حشمت علی اسلامیہ کالج میں اُردو کے پروفیسر اور اس کے بعد راولپنڈی تعلیمی بورڈ میں دو بار بطور سیکریٹری متعین رہے۔ وہ میرے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے اور میری کالم نگاری کے مستقل قاری بھی تھے۔ اکثر فون کرکے حال احوال پوچھ لیا کرتے تھے۔ اللہ کریم غریق ِ رحمت کرے پچھلے سال اُن کا انتقال ہو گیا۔ ہاسٹل میں ساتھ والے کمرے میں ڈاکٹر قاضی محمد عیاض مرحوم اور محترم عبدالقدوس مرحوم مقیم تھے۔ یہ دونوں بزرگ ساتھی میری طرح راولپنڈی کینٹ بورڈ میں ٹیچر تھے اور انہوں نے بھی بلا تنخواہ چھٹی لے کر بی ایڈ میں داخلہ لے رکھا تھا۔ چوہدری محمد اسلم مرحوم بھی ہمارے ایک اور ساتھی تھے جن کا معاملہ ایسا ہی تھا لیکن وہ ہاسٹل میں نہیں رہتے تھے۔ چوہدری محمد اسلم کی معرفت لاہور کی اس وقت کی نواحی بستی ٹھوکر نیاز بیگ جو اب لاہور میں شامل ہو چکی ہے کے قریبی ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد لطیف گوندل مرحوم سے بھی تعارف ہوا جو بعد میں سی بی سر سید سکول و کالج میں میرے رفیق کاربھی رہے۔ اگرچہ ہاسٹل کے کمروں میں کھانے پکانے کی اجازت نہیں تھی لیکن ہم نے اپنے کمرے میں مٹی کے تیل سے جلنے والا اسٹوو رکھا ہوا تھا اور دونوں وقت خود چائے بنا کر پیا کرتے تھے۔ چائے کے لیے پیکٹ کا دودھ لینے کے لیے ہمیں لوئر مال عبور کرکے سامنے مسلم ماڈل سکول کے ساتھ گلی سے گزر کے مغربی سمت سے انارکلی بازار میں جانا ہوتا تھا جہاں نکر پر دودھ اور دہی کی دکان سے پیکٹ کا دودھ مل جایا کرتا تھا۔
سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور کا ذکر چلا ہے تو قابلِ احترام اساتذہ کے تذکرے کے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہو سکتا۔ مجھے افسوس ہے کہ کچھ محترم اساتذہ کے نام میں بھول چکا ہوں تاہم کچھ نام یاد آ رہے ہیں۔ جیسے میں نے اُوپر ذکر کیا کہ پروفیسر اشفاق علی خان مرحوم پہلے پرنسپل تھے تو بعد میں پروفیسر غلام مصطفی خان مرحوم ان کی جگہ پرنسپل بن کر آگئے۔ پروفیسر الطاف ایچ سید جن کا تعلق شعبہ ِ انگریزی سے تھا وہ وائس پرنسپل تھے۔ پروفیسر شمشاد لودھی ہمارے ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ تھے اور ان کا شعبہ ریاضی تھا۔ پروفیسر اسحاق جلالپوری مرحوم جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تدریس اُردو پڑھایا کرتے تھے۔ پروفیسر امیر حسن صاحب جو اچھرہ کے نواحی بستی رحمٰن پورہ میں رہتے تھے، جغرافیہ کے استاد تھے اور میں ان کے ٹیوٹو ریل گروپ میں شامل تھا۔ پروفیسر مختار قریشی ہمیں تاریخ التعلیم اور تدریسِ معاشرتی علوم پڑھاتے تھے۔ انہوں نے بی ایڈ کے نصاب کو سامنے رکھ کر تاریخ التعلیم کی ایک کتاب بھی لکھ رکھی تھی۔ وہ تدریس معاشرتی علوم (سوشل سٹڈیز) پڑھاتے ہوئے اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارا اصل مضمون تو تاریخ اور جغرافیہ ہے لیکن ہم نے امریکہ کی اندھی تقلید میں اس مضمون (سوشل سٹڈیز) کو رائج کر رکھا ہے حالانکہ امریکیوں کی اپنی کوئی تاریخ نہیں اور ان کا تعلق سولہویں اور سترہیوں صدیوں میں یورپ سے نقل مکانی کرکے نو دریافت سرزمین امریکہ میں جا کر آباد ہونے والے انگریز، فرانسیسی، ہسپانوی اور اطالوی ڈاکوؤں،مجرموں اور لٹیروں کی اولاد سے جڑتا ہے۔
سینٹرل ٹریننگ کالج میں کچھ اور اساتذہ بھی تھے جن کے پورے نام اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہے ہیں۔ ان میں مشہور شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم مرحوم کے بیٹے بھی تھے جو ہمیں تعلیمی نفسیات پڑھایا کرتے تھے، انہوں نے بھی بی ایڈ سلیبس کی تعلیمی نفسیات کی کتاب لکھ رکھی تھی۔ محترم اسحاق جلالپوری کی طرح جلالپور شریف سے تعلق رکھنے والے ایک مدبر اور دانشورانہ شہرت رکھنے والے ہمارے ایک استاد بھی تھے جن کے نام کے ساتھ جلالپوری آتا تھا۔ تدریسِ انگلش کے ہمارے بڑے مہربان استاد تھے جن کا پورا نام میں بھولا ہوں البتہ شیخ ان کے نام کا سابقہ تھا۔ روزمرہ سائنس کے استاد کا نام پروفیسر اجمل تھا جو زیادہ اُونچے قد کے نہیں تھے۔ ان کا آخری پیریڈ ہوا کرتا تھا جس میں لڑکے اکثر کھسک جایا کرتے تھے۔ سینٹرل ٹریننگ کالج کے اساتذہ اور کچھ ساتھیوں کا ذکر طویل ہو گیا اور لاہور کی وہ یادیں جن کا میں تذکرہ کرنا چاہتا تھا بیچ میں ہی رہ گئی ہیں۔ ان شاء اللہ یار زندہ صحبت باقی……