میں جس وقت یہ کالم لکھنے میں مصروف ہوں،آزاد کشمیر میں انتخابات جاری ہیں۔حکومتی پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں کشمیر کو اپنے نام کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔مجھے لگ رہا ہے کہ کشمیری بھی نئے پاکستان کی طرح ”نئے کشمیر“ کو سپورٹ کریں گے اور پاکستان تحریک انصاف ان انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلے گی۔کیا ایسا نہیں ہے کہ حکومتی پارٹی سمیت تمام جماعتیں کشمیر کو ہمیشہ مفادات کے پیش نظر دیکھتی رہیں‘آپ کشمیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘کشمیریوں کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوا۔ان کو سبز باغ دکھا کر لوٹا گیا۔جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ”جب میری کوئین آف سکاٹس سے فرانسیسیوں نے کیلے کی بندرگاہ چھین لی تو میری نے کہا کہ مرتے وقت میرے دل کو چیرا جائے تو کیلے کا لفظ وہاں کھدا ملے گا،اسی طرح میرے دل میں بھی کشمیر کا لفظ نقش ہے“۔نہرو کے ان الفاظ پر شیخ عبد اللہ نے کہا تھا کہ نہرو کی یہ توجہ کشمیر کی خوش قسمتی بھی ثابت ہوئی اور بد قسمتی بھی۔ان کے برعکس قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا۔نہرو کا جذباتی بیان ہو یا پاکستانی عمائدین کا خشک اظہار‘کشمیر کو دونوں ملکوں نے اپنے لیے ناگزیر جانا۔میں احمد سلیم کی کتاب”بھٹواو رکشمیر“پڑھنے میں مصروف ہوں تاکہ میں کشمیر کا سارا پس منظر سمجھ سکوں۔احمد سلیم نے اپنی کتاب میں جو لکھا‘میں اس کا مختصرذکر کرتے ہوئے حالیہ کشمیری انتخابات کی جانب بڑھوں گا کیونکہ اگلے ہفتے میں ایک ہفتے کے دورے پر آزاد جموں کشمیر پہنچ رہا ہوں‘میں چاہتا ہوں کہ وہاں جا کر رپوٹنگ کرنے سے پہلے ہم اس سارے معاملے کا پس منظر سمجھ لیں۔
یہ ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ء کا دن تھا جب ہنری لارنس اور جموں کے گورنر گلاب سنگھ نے امرتسر کے مقام پر ایک معاہدے پر دستخط کیے۔معاہدے کی رو سے یہ طے پایا کہ انگریزی حکومت ان تمام پہاڑی علاقوں کو‘جو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع ہیں۔معہ ریاست چمبہ کے‘ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گلاب سنگھ اور اس کے جانشینوں کے حوالے کرتی ہے۔اس علاقے کی مشرقی سرحد کا تعین طرفین کی جانب سے مقرر کردہ نمائندے کریں گے اور ان علاقوں کا قبضہ حاصل
کرنے کے بدلے میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو ۷۵ لاکھ نانک شاہی روپیہ ادا کرنا ہوگا۔معاہدے کی دیگر شرائط میں ریاست پر انگریزی تسلط اور عمل دخل بڑھ گیا۔کشمیر میں ڈوگرہ راج نے سکھوں کی جگہ لے لی۔۴۶۔۱۸۱۹ء کے دوران سکھوں نے جبروتشدد کی نئی نئی مثالیں قائم کیں لیکن ڈوگرہ راج اپنی بربریت میں سکھوں سے بھی آگے نکل گیا۔کشمیر کی ۸۰ فیصد مسلمان آبادی کو زندہ رہنے کی صرف اس لیے اجازت تھی کہ وہ سانس لینے کا بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں،اس ساری صورتحال کے خلاف ردعمل آیا۔۱۸۴۶ء کے معاہدہ امرتسر کے خلاف میرپور‘پونچھ‘راجوری‘رانی پور‘بلتستان اور گلگت کے عوام نے علمِ بغاوت بلند کر دیا۔بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی تک یہ آگ سارے کشمیر میں پھیل گئی۔۱۹۲۴ء میں ریشم خانہ سری نگر نے معاشی استحصال اور ظلم و ستم کے خلاف تاریخی ہڑتال کی۔کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں کے اثرات کشمیری عوام پر بھی پڑنے لگے۔۱۹۲۵ء میں آخری ڈوگرہ حکمران راجہ ہری سنگھ تخت نشین ہوا۔
۱۹۳۱ء تک تشدد اور مزاحمت دونوں اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔۱۷۔۱۶ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو شیخ عبد اللہ اور چودھری غلام عباس کی قیادت میں جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے آزادی کی تحریک کو ایک سیاسی بنیاد میسر آ گئی تھی لیکن ۱۹۳۸ء تک کشمیری مسلمانوں کی یہ قومی جماعت دو ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی۔شیخ عبد اللہ نے کشمیر نیشنل کانفرنس کے نام سے اپنی الگ سیاسی تنظیم قائم کر لی۔ ۴۷۔۱۹۴۶ء برصغیر کی زندگی کے انتہائی ہنگامہ خیز دن تھے،ان کا اثر کشمیر پر بھی پڑا جو ہندوستان کی ۵۶۰ ریاستوں میں سے ایک تھی۔ریاست کے حکومت برطانیہ سے تعلقات مختلف معاہدوں کی بنیاد پر قائم تھے اور ان ریاستوں کو ہندوستانی قانون سے بیرونی علاقہ قرار دیا گیا تھا۔تاجِ برطانیہ کے نمائندوں نے واضح کر دیاکہ برطانیہ کو ریاستوں پر جو بالادستی حاصل ہے وہ کسی اور کو منتقل نہیں کی جائے گی۔۳ جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ِ ہند کے جس منصوبے کا علان کیا گیا اس کے مطابق ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء سے تمام معاہدے ختم کیے جا رہے تھے اور ریاست کے سامنے تین ممکنہ راستے کھلے تھے۔ پہلا،خود مختاری کا علان، دوسرا، ہندوستان یا پاکستان سے الحاق اور تیسرا،ریاستیں باہمی طور پر ایک دوسرے سے الحاق کر لیں۔
۱۰ جولائی ۱۹۴۷ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں آزادی کا بل پیش ہوا‘وزیراعظم اٹیلی نے اس بل پر مفصل تقریر کی جس کے مطابق معاہدوں اور عہد ناموں کے خاتمے کے ساتھ ہی ریاستوں کو اپنی خودمختاری واپس مل جائے گی۔ماؤنٹ بیٹن نے تمام ریاستوں کے حکمرانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی اپنی ریاست کی جغرافیائی پوزیشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ کانگرس ریاستی خود مختاری حق میں نہیں تھی اور نہرو نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ ”ریاستیں پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق تو کر سکتی ہیں لیکن وہ آزاد خود مختار بن کر زندہ نہیں رہ سکتیں“۔مسلم لیگ کا موقف اس کے برعکس تھا،قائد اعظم نے ۱۷ جون اور ۳۰ جون ۱۹۴۷ء کو اپنے بیانات میں واضح کیا کہ مسلم لیگ کو ریاستوں کے وجود کے بارے کوئی غلط فہمی نہیں۔اقتدار ِ اعلیٰ کی منتقلی کے ساتھ ہی ہندوستانی ریاستوں کو خود بخود یہ حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں یا آزاد رہنے کا فیصلہ کریں۔ ان دو متضادموقف رکھنے والی سیاسی قیادتوں کی غیر معمولی دلچسپی قابلِ غور تھی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ملحق کرنے کی الگ الگ کوششوں کا آغاز ہو چکا تھا‘ اس وقت شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس دونوں ہی جیل میں تھے۔ان دنوں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس چودھری حمید اللہ کی زیرِ صدارت ہوا۔اس اجلاس میں مجلس عاملہ نے ریاست کو خود مختار رکھنے کی سفارش مرتب کر کے اسے جنرل کونسل میں پیش کیا۔جنرل کونسل کا اجلاس ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو سری نگر میں ہوا‘مجلس عاملہ نے یہ فیصلہ ایک خط کی بنا پر کیا تھا جو قائد اعظم کی جانب سے ان کے لیٹر پیڈ پر لکھا ہوا تھا۔یہ خط مشورے کے لیے جیل میں چودھری غلام عباس کو بھیجا گیا جنہوں نے اسے قائد اعظم کا خط تسلیم کرنے سے انکار کر دیااور کہا کہ ریاستوں کو پاکستان یا ہندوستان سے الحاق تسلیم کرنا ہو گا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مسلم کانفرنس، پاکستان سے الحاق پر زور دے۔۱۹ جولائی سری نگر کے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کر لی گئی۔