اسلام آباد : کسی بھی سیاسی جماعت میں فارورڈ بلاک بنانے پر آئینی قدغن ہے کسی پارلیمانی جماعت میں یہ بلاک نہیں بن سکے گا - بلاک بنانے والے اپنی نشستیں کھو بیٹھیں گے-
فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کرنے والوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے ٹوٹ جائے گی, آئین میں واضح کر دیا گیا ہے کہ فارورڈ بلاک بنانے، پارٹی قیادت کے فیصلوں سے انحراف کرنے، وزیر اعظم اور وزیر اعلٰی کے انتخاب میں پارٹی سربراہ کے فیصلے کے مطابق ووٹ نہ دینے یا وفاداری تبدیل کرنے کی صورت میں متعلقہ پارلیمینٹرین اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
وزیر اعظم اور وزیر اعلٰی کا انتخاب اوپن رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ کی ہدایت سے روگردانی کرنیوالا رکن سامنے آجائے گا جسے نشست سے محروم کرنے کے لیے آئینی کاروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔ خبر رساں ادارے کے مطابق آئینی شق میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم، وزیر اعلٰی کے انتخاب فنانس بل آئینی ترمیم کے حوالے سے ارکان پارٹی سربراہ کی ہدایت کے پابند ہوں گے-
اس سے روگردانی پر ان کے خلاف الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوایا جا سکتا ہے اسی طرح وفاداری تبدیل کرنے کی صورت میں بھی نشست کھو بیٹھیں گے فارورڈ بلاک بنانے والوں کو آئینی کاروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے پارٹی سربراہ کو آئین کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے والے پارلیمینٹرینز کے خلاف ریفرنسز بھجوا سکیں اسی آئینی قدغن کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں فارورڈ بلاک کا حربہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا -
آئینی کاروائی کے خوف سے تحریک انصاف میں ماضی میں فارورڈ بلاک کا دعوٰی کرنیوالے اپنے وزیر اعلٰی پرویز خٹک کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ لا سکے تھے کیونکہ بعد میں وہ اپنی نشستیں کھو بیٹھتے یہ آئینی قدغن اٹھارویں ترمیم کے تحت لگائی گئی ہے آئین کی شق 63الف (1) جو کہ انحراف وغیرہ کی بنیاد پر نا اہلیت سے متعلق ہے میں واضح طور پر یہ الفاظ درج ہیں کہ اگر کسی ایوان میں کسی تنہا سیاسی جماعت پر مشتمل پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہو جائے یا کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو جائے یا اس پارلیمانی پارٹی کی طرف سے ہدایت کے برعکس ووٹ دینے سے اجتناب کرے تو وہ نا اہل ہو سکتا ہے
جاری کردہ حسب ذیل ہدایات میں وزیراعلٰی یا وزیر اعلٰی کے انتخاب یا اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ اسی طرح مالی بل یا دستوری ترمیمی بل سے متعلق ہیں آئین میں کہا گیا ہے کہ ان معاملات پر پارٹی سربراہ فیصلہ کرے گا اور تحریری طور پر متذکرہ رکن کے انحراف کا تحریری طور پر اعلان کرے گا اور پارٹی سربراہ کے اعلان کی کاپی چیف الیکشن کمشنر اور متعلقہ رکن کو بھیجی جائے گی-
اعلان سے پہلے متعلقہ رکن کو اظہار وجوہ کا موقع فراہم کیا جائے گا پارٹی سربراہ کے تحریری اعلان کی وصولی کے تین دن کے اندر چیف الیکشن کمشنر اس حوالے سے فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے الیکشن کمیشن اگر پارٹی سربراہ کے اعلان کی توثیق کر دے تو متعلقہ رکن متعلقہ ایوان کا رکن نہیں رہے گا الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ناراض کوئی فریق 30دن کے اندر عدالت عظمٰی میں اپیل کر سکے گا جس پر 90دنوں میں عدالت فیصلہ کرنے کی پابند ہو گی یاد رہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلٰی کا انتخاب اوپن رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے -
پارٹی سربراہ کی ہدایت سے روگردانی کرنیوالا رکن سامنے آجائے گا جسے نشست سے محروم کرنے کے لیے آئینی کاروائی عمل میں لائی جا سکے گی