اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی۔ موجوہ سیاسی حالات میں آئینی اورحکومتی ادارے قانون کے مطابق کام کریں۔
سپریم کورٹ میں بچیوں کی بازیابی سے متعلق کیس چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی ۔ سپریم کورٹ کا 5 سال سے بچیوں کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ پولیس کو ایک ماہ میں بچیوں کی بازیابی کا حکم دے دیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ موجودہ سیاسی حالات میں آئینی اور حکومتی ادارے قانون کے مطابق کام کریں۔ سوموٹو نہیں لے رہے لیکن بنیادی حقوق کا تحفظ کرینگے ۔ سوموٹو کا اختیار اس لیے استعمال نہیں کر رہے کہ ادارے خود کام کریں ۔عدالت ریاستی اداروں کو مضبوط کرنا چاہتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا پولیس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی ۔ بلوچستان میں بھی صورتحال پہلے سے کافی بہتر ہے ۔ ملک کیخلاف جاسوسی کا کیس نہیں جو حساس اداروں کو شامل کرنا پڑا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی ہوتی تو آج یہ کیس نہ سننا پڑتا ۔چھ سال سے بچیاں غائب ہیں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ۔شہریوں کے لاپتہ ہونے پر کسی کو تو جوابدہ ہونا ہی پڑے گا ۔ نام بتائیں کون ذمہ دار ہے اس کیخلاف کارروائی کرینگے۔ تسلیم کریں انتظامیہ میں اہلیت ہی نہیں کہ شہریوں کی حفاظت کر سکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ریاستی اداروں کیخلاف کارروائی کرنا اچھا عمل نہیں ہوگا۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ 5سال سے بچیوں کی بازیابی نہ ہونا پولیس کی ناکامی ہے۔ چسٹس اطہر من اللہ نے کہ لاپتا افراد کے معاملے پر بڑوں کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بااثر افراد نے بچیوں کے اغوا میں مدد کی اور ملزم کو تحفظ بھی دیا۔
چیف سیکرٹری سندھ نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی میں آئی بی کیساتھ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو بھی شامل کیا ہے ۔اعلیٰ ترین سطح پر بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک شخص اتنا مضبوط ہے کہ پورے سسٹم کو ناکام بنا دیا ہے؟ کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی گئی