برطانیہ کے سابق خارجہ سیکریٹری جیک سٹرا نے خصوصی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ 2002ء کے دوران بھارت میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر نے لندن کے دفترِ خارجہ کو رپورٹ بھیجی تھی کہ نریندر مودی گجرات میں ہونے والے فسادات کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ موصول ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گجرات میں ہونے والی ہلاکتوں میں نسل کشی کی تمام علامات موجود ہیں۔
جیک سٹرا کے مطابق برطانوی ہائی کمشن کی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی نے27 فروری کو سینئر پولیس افسران سے ملاقات کر کے انہیں فسادات کے دوران مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔ وہ واقعی اس بارے میں بہت فکر مند تھے۔ جیک سٹرا نے جو بھارت کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، کہا کہ وہ بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ سے واقف ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے 2002کے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں نریندر مودی کے کردار سے متعلق ایک ڈاکیومنٹری جاری کی جس میں انکشاف کیاگیا ہے کہ برطانوی دفتر خارجہ کو گجرات فسادات میں مودی کے کردار سے متعلق حقا ئق کا علم ہے۔ مودی کی طرف سے قاتلوں کو دیئے گئے استثنیٰ کے بغیر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام نہیں کیاجاسکتا اور نریندرمودی براہ راست طورپر گجرات میں مسلم کش فسادات میں ملوث تھے۔ واضح رہے کہ گجرات میں 2002میں مسلم کش فسادات کے دوران ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیاگیا تھا۔نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
بجائے اس کے کہ مودی اس الزام کا جواب دیتے، بھارت نے گجرات فسادات کا ذمہ دار مودی کو قرار دینے والی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ڈاکومینٹری(دستاویزی فلم) کو پروپیگنڈا قرار دے کر پابندی لگا دی۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر بنائی گئی دستاویزی فلم ' انڈیا: دی مودی کویسچن ' میں برطانوی دفترِ خارجہ کی ایک خفیہ رپورٹ کا انکشاف کیا گیا ہے جس میں مودی کو گجرات میں مسلم کش فسادات کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ دستاویزی فلم میں سوال اٹھایا گیا ہے نریندر مودی بطور وزیر اعلیٰ 2002 کے گجرات فسادات کو روکنے اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں ناکام کیوں ہوئے؟بی بی سی کا کہنا ہے دستاویزی فلم کی تیاری میں تمام ادارتی معیارات کا خیال رکھتے ہوئے منصفانہ تحقیق کی گئی، بی جے پی سمیت تمام حلقوں، عینی شاہدین اور ماہرین کی آرا کو بنیاد بنایا گیا، حتیٰ کہ بھارتی حکومت سے بھی رجوع کیا گیا لیکن مودی سرکار نے اپنا موقف دینے سے انکار کر دیا۔ گجرات فسادات کا آغاز ایک ٹرین میں آگ لگنے اور اس سے 60 ہندو یاتریوں کی ہلاکت سے ہوا تھا جس کے بعد ہنگامہ آرائی کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا جس کے دوران لگ بھگ 1000 سے زائد افراد، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، شہید کیے گئے۔گجرات فسادات بھارت میں مذہبی تشدد کے بدترین فسادات میں سے ایک تھے۔ احسان جعفری کانگریس کے سابق رکن پارلیمان تھے جو ان فسادات کے دوران مارے جانے والوں میں شامل تھے۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گجرات فسادات میں 1044 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں 790 مسلمان اور 254 ہندو تھے۔ تاہم غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس کے دوگنا سے زیادہ تھی۔
گجرات فسادات کے متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل شمشاد پٹھان کا کہنا ہے کہ گینگ ریپ جیسے ہولناک جرم کے مقابلے میں کم بھیانک جرم کرنے والے سیکڑوں افراد جیلوں میں بند ہیں اور انہیں معافی نہیں مل رہی۔حکومت جب ایسے فیصلے کرتی ہے، تو انصاف کے نظام پر متاثرین کا یقین متزلزل ہو جاتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو قصور وار افراد کی درخواستوں پر غور کرنے کا حکم دیا تھا، تب بھی حکومت کو انہیں معاف کرنے کے بجائے ان کے خلاف فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔“
گجرات کے ایڈیشنل سیکرٹری کمار کے مطابق عمر قید کی سزا کا مطلب ہوتا ہے جیل میں 14 برس گزارنا اور اتنی مدت گزارنے کے بعد کوئی بھی مجرم اپنی رہائی کے لیے درخواست دے سکتا ہے اور حکومت متعلقہ حکام سے صلاح و مشورے کے بعد اسے رہا کر سکتی ہے۔ گیارہ میں سے ایک قصور وار نے مئی میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی، جس پر عدالت نے ریاستی حکومت کو غور کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ریاستی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے تمام گیارہ مجرموں کی درخواستوں پر غور کیا، جس کے بعد جسونت نائی، گووند نائی، شیلیش بھٹ، رادھے شیام شاہ، بپن چندرا جوشی، کیسر بھائی ووہانیا، پردیپ موردھیا، باکابھائی ووہانیا، راجو بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش چاندنا کو رہا کر دیا گیا۔
عمر قید اور معافی دینے کے حوالے سے ملک بھر میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ ایک طرف تو کچھ مجرموں کو 15 برس بعد جیل سے رہا کیا جا رہا ہے جب کہ کچھ لوگ 30 برس یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے جیلوں میں ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال ان سکھ قیدیوں کی ہے، جو تین دہائیوں سے جیلوں میں ہیں۔