واپڈا کی انتظامیہ کوکیا علم کہ اس بچے کی ذہنی حالت کیا ہوگی، وہ کس کرب سے گذر رہا ہو گا، جس کی والدہ بسترمرگ پر درد سے کراہ رہی ہوگی، جس کا واحد علاج آپریشن تھا، مگر بجلی کے طویل بریک ڈاؤن کے باعث ڈاکٹربھی اس کی زندگی نہ بچا سکے،اس مزدور کی کیا کیفیت ہوگی جو صنعت کے بند ہونے پراس گرانی میں خالی ہاتھ گھر کو لوٹ گیا۔ اُس کسان سے تو پوچھیں جو کسی سے ٹیوب ویل کا پانی خرید کر لگانے کی امیُد پر بجلی کا منتظر رہا کہ اسکی فصل خشک اور ضائع ہونے سے محفوظ رہے، اس طالب علم کا کیا حال ہو گا،جو امتحان کی تیاری کے لئے بیٹھ کر بجلی کا منتظر رہا،اُس امیدوار کے دل پر کیا گذری ہو گی جو ملازمت کے حصول کیلئے ٹیسٹ کی تیاری میں بجلی کی راہ دیکھتا رہا،شادیوں کے اس موسم میں ٹیلر کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی،جو وعدہ ہی وفا نہ کر سکا۔
یہ پتھر کا زمانہ نہیں،انفارمیشن ٹیکنالوجی کا عہد ہے،اب تو ہرخوشی، غم بھی توانائی کے ساتھ منسلک ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کے علاوہ مردے کے کفن دفن کے لئے بھی پانی درکار ہے بغیر بجلی اس کا حصول مشکل نہ سہی ناممکن ضرور ہے۔
بجلی کے بریک ڈاؤن پر ادارہ کی نااہلی پر سوالات اٹھتے رہے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ پاور ہاؤسز کو چلانے میں غفلت اور عجلت کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے فریکوئنسی میں کمی بیشی ہوئی جو بریک ڈاؤن کی و جہ بنی، واپڈا کے انجینئرزکی یہ حماقت قوم کو سوا ارب کے نقصان میں پڑی ہے، کہا جاتا ہے کہ بریک ڈاؤن کا ایک ماہ میں دوسرا واقعہ ہے جبکہ2014 سے نویں بار بریک ڈاؤن کی اذیت عوام کو برداشت کر نا پڑی ہے۔ جب پورا ملک بجلی جیسی نعمت سے محروم رہا۔بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ بجلی کی کم پیداوار سے بریک ڈاون ہوا ہے۔
توانائی کے وزیر نے اس سانحہ میں بیرونی ہاتھ کی مداخلت کا عندیہ بھی دیا ہے کہ انٹرنیٹ کی مدد سے بریک ڈاؤن کیا گیا، وزیر اعظم نے اس کا جائزہ لینے کے لئے تین رکنی کمیٹی بنا دی ہے، تاہم اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دیگر قومی اداروں کی طرح یہ شعبہ بھی زوال پذیر ہے۔
نیشل الیکٹرک پاور ریگولر اتھارٹی ”نیپرا“ نے گذشتہ سال کی سالانہ رپورٹ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ناقص کارکردگی کا پول کھول دیا
ہے، انہوں نے2021-2022 میں 292ارب کا نقصان قومی خزانہ کو پہنچایا ہے،170ارب کی کم وصولیاں کی ہیں، لائن لاسز اس کے علاوہ ہیں، کرنٹ لگنے سے 196قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں جو گذشتہ سال کے مقابلہ میں 17فیصد زیادہ ہیں،رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ان کمپنیز کو صوبہ جات کے حوالہ کر دیا جائے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ پن بجلی کی پیداوار میں 90 فیصد کمی ہوئی ہے،بارہ سے زائد پاور پلانٹس فنی خرابی کی بدولت بند ہیں، نیلم جہلم پاور پر جیکٹ فنی خرابی کی بدولت آٹھ ماہ سے بند ہے،عوامی سطح پر یہ تاثر قائم ہے کہ بدعنوانی میں اس محکمہ کا اب کوئی ثانی نہیں ہے،اس کے ملازمین کی دلچسپیاں اب ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے میں ہے،المیہ یہ کہ وہاں کے انتظامی امور بھی صاف شفاف نہیں ہیں،بدعنوانی کی داستانیں زد عام ہیں،جن شہروں میں واپڈا ٹاؤنز موجود ہیں وہاں کے روح رواں اینٹی کرپشن کی یاترا کر کے آئے ہیں بدعنوانی کے الزامات میں نیب میں پیش ہونے کی سعادت تو چیئرمین واپڈا کے حصہ میں بھی آئی ہے۔
بجلی چوری کرانے، ریڈنگ پیچھے کرکے اپنی جیب کو گرم رکھنے کی مشق تو ہر اہلکار کرتا رہتا ہے،اگر نیب کی بشرف نگاہ ان کے ملازمین کے اثاثوں کی طرف اٹھے توچشم کشا انکشافات منظر عام پر آئیں گے،بڑی بڑی مارکیٹوں میں شارٹ سرکٹ کے واقعات کی وجہ وہ گچھا نما بجلی کی تاریں ہیں جو ہر شہری کو بھرے بازار موت کی دعوت دیتی پھرتی ہیں، غیر محکمانہ منافع بخش سرگرمیوں میں مشغول اہلکاروں کے پاس انکی اصلاح کی منصوبہ بندی کا کوئی وقت نہیں ہے۔
بدقسمتی سے دیہی علاقہ جات میں اگر بجلی کا ٹرانسفامر خراب ہو جائے تو عوام اپنی جیب سے چندہ جمع کر کے اسکی مرمت کراتے ہیں، جبکہ یہ ذمہ داری واپڈا کی ہے،اس شعبہ کی انتظامیہ کے اخلاص کا یہ عالم ہے کہ 75 سال کا طویل دورانیہ گذرنے کے باوجود قریباً ہر شہر میں سب ڈویژن آفیسرز کے دفاتر کرایہ کی بلڈنگ میں ہیں، سرکارکرایہ کی مد میں اب تک ارب ہا روپیہ خرچ چکی ہے حالانکہ اس سے نصف رقم میں سرکاری دفاتر بن جاتے تو محکمہ کا اثاثہ ہوتے، مگر اس ”کار خیر“ میں کسی کی دلچسپی نہیں ہے۔واپڈا ذرائع کا کہنا ہے کہ پری پیڈ کارڈ برائے بل بجلی کی سکیم تعارف کرانے کی غرض سے محکمہ کی بیوروکریسی نے کام شروع کیا تاکہ بجلی چوری روکی جا سکے،مگر یہ سوچ کر بند کر دیا کہ اس سے ملازمین کی خاطر خواہ تعداد ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی، عملہ میں خاطر خواہ کمی ہو جائے گی اس پر مزید کام بند کردیا گیا یہ منصوبہ عوام اور قوم کے وسیع تر مفاد میں تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کی اپ گریڈیشن پر کوئی توجہ نہیں دی گئی،کسی ایک لائن میں خرابی سے پورے ملک میں بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے، گڈو، مظفرگرھ، تربیلا ہی وہ مراکز ہیں جہاں سے خرابی کا آغاز ہو تا ہے۔
ترسیل اور پیداواری نظام میں کوئی ربط نہیں ہے،کچی آبادیاں جہاں غیر قانونی طور پر لوگ آباد ہیں وہاں بھی محکمہ کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے بجلی فراہم کی جاتی ہے اور انکے بل ملازمین کی مٹھی میں جاتے ہیں، بعض علا قہ جات سے بلوں کی وصولی کی شرح حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس کا بوجھ دوسرے صارفین پر ڈالا جاتا ہے اس لئے آمدن اور اخراجات میں توازن نہیں پایا جاتا ہے، ماضی کی حکومتوں کے پرائیویٹ کمپنیز کے ساتھ معاہدے بھی وبال جان ہیں، لوڈشیڈنگ اس لئے بھی لازمی خیال کی جاتی ہے کہ بجلی بلوں کے پیش نظر مہنگے پلانٹس بند رکھنا پڑتے ہیں۔باوجود اس کے کہ سردیوں میں بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے۔
ہمارے مقابلہ میں بھارت نے توانائی کو اپنی ترقی کا ذریعہ بنایا ہے قریباً ہر دیہات میں بجلی فراہم کی ہے، اس نے”ایک ملک، ایک گرڈ ایک فریکیوئنسی“کا ٹارگٹ حاصل کیا ہے، سولر انرجی کی صلاحیت میں انڈیا نے 15فیصد اضافہ کیا ہے، وہ لوگ واقعی قابل تحسین تھے جنہوں تربیلا اور منگلا ڈیم بنانے اور چلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، مگر اب یہ محکمہ”سفید ہاتھی“ثابت ہو رہا ہے، ناقص کارکردگی، لائن لاسز پر عدم کنٹرول، مہنگی بجلی کی پیداوار، بجلی چوری، بدعنوانی، اقربا پروری، رئیل سٹیٹ میں سرما یہ کاری،غیر ضروری محکمانہ مراعات،لیبریونین کے ہاتھوں محکمہ کی یرغمالی وہ چارج شیٹ ہے، جس کی بدولت یہ شعبہ انحطاط کا شکار ہے،دیگر کی طرح خسارہ میں چلنا اِس کا مقدر ہے،جس میں بڑا ہاتھ واپڈا کی بیورو کریسی کا ہے۔نیپرا کی رپورٹ ارباب اختیار کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ اس میں تطہیر کا عمل شروع کیا جائے قبل اس کے ایک بڑا بریک ڈاون عالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی کا پھر سے سبب بنے۔